کچھ لوگ یہ سوچتے ہیں کہ القاعدہ سچ مچ امریکہ کے خلاف نبرد آزما ہے لیکن سچ یہ ہے کے القاعدہ خود کو امریکہ کا دشمن ظاہر کر رہا ہے تاکہ شام عراق، لبنان ، پاکستان، افغانستان اور تمام اسلامی ملکوں میں امریکہ کی پالیسیوں کو عملی جامہ پہنائے.
سارے سیاسی اور فوجی تجزیہ نگار معتقد ہیں کہ دہشت گرد گروہ القاعدہ امریکہ کی جاسوسی تنظیم کا ساختہ اور پرواختہ ہے اور ایک مصنوعی دشمن کے عنوان سے دنیا کے مختلف ملکوں میں اپنے مقاصد کے حصول کی خاطر امریکی حکومت اسکا استعمال کر رہی ہے.
اسامہ بن لادن کی قیادت اور امریکی کمپنیوں کی مالی امداد سے افغانستان اور مرکزی ایشیا کے تمام ملکوں میں سابقہ روس کا مقابلہ کرنے کی خاطر القاعدہ کا وجود عمل میں لایا گیا. روس میں کمیو نسٹی نظام کے بکھرنے کے بعد امریکہ کو ایک مصنوعی دشمن کی ضرورت تھی تاکہ اسکے ذریعے وہ پوری دنیا میں اپنے اقدامات کا بہانہ پیش کر سکے اور خاص کر مغربی ایشیا اور شمالی افریقہ میں اپنے مقاصد حاصل کر سکے. یہ موضوع امپرا طوری روم کی طرف سے ایک مصنوعی دشمن بربریوں کے نام سے ایجاد کرنے کی مانند تھا جو اس امپرا طورری کے گلے کی ہڈی بن گیا تھا. دنیا میں بہت سارے سیاسی مسائل کے صاحبان رائے معتقد ہیں کہ 11 ستمبر 2001 کے نیویارک میں ورلڈ ٹریڈ سنٹر پر حملے مشکوک تھے اور اس مسئلے کے مصنوعی ہونے کی بہت ساری دستاویز موجود ہیں. بعض کہتے ہیں کہ سی آئی اے اور خاص کر جارج بش کو ان حملوں کی خبر تھی اور بعض اس واقع میں امریکہ کی جاسوسی اور فوجی مشینری کی کمزوری کی طرف اشارہ کرتے ہیں.
بہر صورت القاعدہ کا یہ دہشت گردانہ اقدام کہ جو ایک قومی احتمال کی بنا پر امریکہ کی سی آئی اے کی مدد سے 11 ستمبر کے دن بہت سارے بے گناہوں کو مارنے کی خاطر انجام پایا جبکہ اس روز 400 یہودیوں کو پہلے سے خبر تھی اور وہ کام پر نہیں آئے یہ افغانستان پر القاعدہ اور طالبان کے مرکز کے عنوان سے قبضے کا بہانہ بن گیا. اس طرح امریکی حکومت کو اپنا مقصد حاصل ہو گیا بعد میں اس نے یہی سلوک اپنے ہاتھوں کے پروردہ صدام کے ساتھ بھی روا رکھا اور کیمیکل ہتھیاروں کے بہانے جس کا جھوٹ ہونا بعد میں ثابت ہو گیا سال 2003 میں اس نے عراق پر قبضہ کیا.
اس بنا پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ دہشت گرد القاعدہ امریکہ کا ایک مصنوعی دشمن ہے جسے اس نے مسلمان نشین علاقوں میں بد امنی پھیلانے کی خاطر بنایا ہے اور اپنی مخفیانہ سیاست کے ذریعے اس گروہ سے ضروری فائدہ اٹھا رہا ہے. دینا کے مختلف ملکوں کے مسلمان رفتہ رفتہ اس موضوع سے واقف ہو چکے ہیں کہ القاعدہ امریکہ کا پرودہ ہے اور اسکے ایجاد کرنے کا مقصد امریکہ کی پالیسیوں اور اسکے منافع کو دنیا کے مختلف علاقوں میں مخفی رکھنے کے سوا اور کچھ نہیں. کچھ لوگ اشتباہ میں یہ سوچتے ہیں کہ القاعدہ واقعی امریکہ کے خلاف برسر پیکار ہے لیکن حقیقت یہ ہے کے القاعدہ صرف یہ دکھا رہا ہے کہ وہ امریکہ کا دشمن ہے تاکہ شام لبنان پاکستان عراق افغانستان اور تمام اسلامی ملکوں میں امریکہ کی پالسیوں کو عملی جامہ پہنا سکے.
کیونکہ امریکہ اپنے مقاصد کے حصول کی خاطر کچھ بھی کر سکتا ہے اور ممکن ہے کہ وہ علاقے میں ایک نئی چھاؤنی وجود میں لے آئے اسلئے کہ امریکی ثروت مندوں کی نظر میں مقصد مہم ہے وسیلہ چاہے جو بھی ہو. اپنے منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کیلئے امریکہ نے عراق میں القاعدہ کی ایک ذیلی تنظیم داعش کو متحرک کیا ہے.
داعش کیا ہے ؟
داعش یا " الدولہ الاسلامیہ فی العراق والشام " ایک دہشت گرد گروہ ہے جو عراق پر امریکی اور برطانوی فوجی قبضے کے آغاز میں ہی امریکہ اور برطانیہ کی جانب سے معرض وجود میں لایا گیا. اس گروہ نے 2004 میں القاعدہ کی حمایت اور اسکے ساتھ اپنی وابستگی کا باضابطہ اعلان کرتے ہوے دہشت گردانہ کاروائیاں تیز کر دیں. یہ گروہ اب القاعدہ عراق کے نام سے معروف ہے. 15 اکتوبر 2006 کو اس دہشت گرد ہ نے امارت اسلامی عراق کے تحت تمام چھوٹے دہشت گرد گروہوں کو اپنے اندر ضم کر لیا. اس وقت داعش میں بے شمار چھوٹے دہشت گرد گروہ بھی شامل ہو چکے ہیں. اسی طرح عراق کے سابق آمر صدام حسین کے مخصوص فوجی دستے جو " فدائیان صدام " کے نام سے جانے جاتے تھے بھی داعش میں شامل ہو چکے ہیں. اس دہشت گرد گروہ کا مقصد عراق کے ایسے علاقوں میں خلافت اسلامی کا قیام تھا جہاں اہلسنت مسلمانوں کی اکثریت موجود ہے اور اسی طرح شام میں سرگرم حکومت مخالف تکفیری دہشت گرد گروہوں کو انسانی قوت فراہم کرنا تھا.
داعش کی وسیع پیمانے پر دہشت گردانہ سرگرمیوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ ایک " قابل اطمینان مالی سپورٹ " سے مزین ہے کیونکہ یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک ایسا دہشت گرد گروہ جسکے سالانہ اخراجات ایک ملک کے بجٹ سے بھی زیادہ ہوں مسلسل تین سالوں سے مختلف ممالک میں دہشت گردانہ سرگرمیوں میں مصروف ہو؟
پڑھنے کا شکریہ اپنی قیمتی آراہ سے ضرور نوازیں
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں