ایک کڑوا سچ تو یہ ہے کہ اسرائیل نے 60 سال کے دوران جتنا ظلم فلسطنیوں پر کیا، اس سے کہیں زیادہ اور کہیں غیر انسانی مظالم تو شیعہ. سنیوں نے آپس میں ڈھا دیئے ہیں. اسرائیل کے مظالم کو اب تک عالم اسلام سب سے بڑے عتاب کے طور پر دیکھتی تھی اور شور مچاتی تھی، مگر اب کیا ہو رہا ہے؟ مسلمان تو مسلمان کی گردن کاٹ رہا ہے.
بغداد.... 80 میل دور... اب بغداد 60 میل دور... اب بغداد صرف 40 میل دور.. بغداد کے اردگرد باغی سنیوں کے ساتھ خوفناک جنگ جاری ہے. آئی ایس آئی ایس کی پیش قدمی روکنے اور حملے کا جواب دینے کیلئے بغداد میں شیعہ نوجوان ، بوڑھے اور کیا بچے سب سڑکوں پر ہیں. ہاتھوں میں ہتھیار لہرا رہے ہیں. باغی سنیوں کے ساتھ بغداد کی حتمی جنگ کا انتظار ہے. عراق میں مسلکی منافرت کی آندھی زور پکڑ رہی ہے. عراقیوں میں بھگڈر کا عالم ہے. 10 لاکھ عراقی ملک چھوڑ کر فرار ہو چکے ہیں. عراق لاشوں سے پٹ گیا ہے، ایک خوفناک یہودی سازش کے جال میں جکڑتا جا رہا ہے عراق. اس سے بڑا المیہ یہ ہے کہ بے بسی کی صورت بن گیا ہے عالم اسلام اور سب سے بڑا کھلاڑی امریکہ بھی عراق کی بھیانک تصویر دیکھ کر کسی نئے کھیل کیلئے نہیں ہو رہا ہے تیار. امریکہ کا گیم پلان فیل ہو گیا ہے، مگر اسرائیل کا مقصد پورا ہو چکا ہے. عرب دنیا میں اسکا سب سے بڑا چیلنج عراق بھی ٹکڑے ٹکڑے ہونے کے دہانے پر ہے. عراق سے عراقی بھاگ رہے ہیں کیونکہ عراق میں لاشوں کے ڈھیر ہیں. کٹے سروں کی نمائش ہے. سرعام قتل ہو رہے ہیں. ایک دوسرے سے زیادہ ظالم ہونے کا مقابلہ جاری ہے. ہر کوئی ایک دوسرے کے خون کا پیاسا ہو رہا ہے. کوئی خون بہا رہا ہے، تو کوئی خون کا بدلا لے رہا ہے، یعنی انتقام در انتقام، نفرت در نفرت. کہیں سنی ظالم ہیں، تو شیعہ مظلوم، تو کہیں شیعہ ظالم ہے تو سنی مظلوم. کہیں جہاد کے نام پر بزرگان دین کی نشانیوں کو تباہ کرنے کا جنون، تو کہیں انکی حفاظت کا جوش، عجیب و غریب عالم ہے، دنیا دنگ ہے اور دنیا والے ششدر ہیں. تشدد کی انتہا کو دیکھ کر لرز گئی ہے دنیا، مگر عراق میں کچھ اور سماں ہے. صحرا میں گھمسان ہے، تو بغداد کی سڑکوں پر کہرام. اب بغداد چند میل کی دوری پر عراق میں ہیجان پیدا کر رہا ہے. دنیا دیکھ رہی ہے کہ عراق میں منافرت اور تشدد کی خوفناک تصویر. کہیں 6 سالہ شیعہ بچہ علم اٹھائے ہوئے ہے، تو کہیں 6 سالہ سنی بچہ جہاد کا پرچم. جو نسل در نسل. نفرت، ٹکراؤ اور دشمنی کا ثبوت دے رہا ہے. ایک دوسرے کو مٹانے کیلئے بے قرار شیعہ سنی صحرا میں نئے قبرستان آباد کرنے کو تیار ہیں.
دنیا سوچ رہی ہے کہ کیا ہوا عراق کو ؟ کیا ہوا عراقیوں کو ؟ کیا ہو گیا شام کو؟ کیا ہو گیا شام کے باشندوں کو ؟ کیا ہو گیا ہے لیبیا کے صحرائی جہادیوں کو ؟ عراق میں آئی ایس آئی ایس کی یلغار اور اب بغداد کے دفاع کیلئے شیعوں کی دیوار نے عراق کو تاریخ کے سب سے نازک بحران کا شکار کر دیا ہے. سب لڑ رہے ہیں، سب جانتے ہیں کہ یہ اسلام کی تعلیم نہیں، جب یہ اسلام کی تعلیم نہیں، تو یہ اسلام کا کام نہیں اور جب یہ اسلام کا کام نہیں تو پھر کیا ہو گیا اہل عراق کو؟
صیہونی سازش کا جال
عراق کی خانہ جنگی نے عالم اسلام کو مسلکی بنیاد پر اس قدر اندھا بنادیا ہے کہ کوئی اس بات کو سمجھنے کو تیار نہیں کہ ہم امریکہ اور اسرائیل کی کٹھ پتلیاں بن چکے ہیں. ہم صہیونی سازش کے جال میں پھنس گئے ہیں، اسلئے ہم لبنان سے لیکر شام اور عراق سے لیکر ایران اور افغانستان سے لیکر پاکستان تک اسی منافرت کو ہوا دے رہے ہیں، جو عالم اسلام کو نگل جائے گی. ذرا آنکھ کھول کر دیکھئے! ذرا دماغ پر زور دیجئے کچھ عقل کا استعمال کیجئے. یہ خون شیعہ ہے نہ سنی. یہ عالم اسلام کا خون ہے. اے جنگ عالم اسلام کے خلاف صہیونی سازش ہے، جو عالم اسلام کی خود مسلمانوں کے ہاتھوں اینٹ سے اینٹ بجا دے گی، مگر افسوس عالم اسلام کی عقل پر پردہ پڑ گیا ہے، بس مسلکی طاقت اور دبدبہ کے سوا کچھ نظر نہیں آرہا ہے.
اسرائیل پرسکون بیٹھا ہے. اسکو اب کسی کی فکر ہے نہ ڈر. مصر میں کھیل ہو گیا، ترکی میں کھیل جاری ہے. لیبیا میں کھیل ختم ہو گیا، اب عراق میں بساط لگی ہوئی ہے. اسرائیل نے اپنے حریف کو توڑ دیا، منتشر کر دیا، مردہ کر دیا. عالم اسلام میں جو بھی طاقت اسرائیل کیلئے ایک چیلنج تھی، اسکا حشر کیا ہوا سب کے سامنے ہے. کہیں سیاسی بغاوت ہوئی، تو کہیں فوجی اور کہیں خانہ جنگی.
ذرا سوچئے........ شام میں کیا ہوا اور عراق میں کیا ہو رہا ہے؟ کیا شیعہ اور سنی کبھی اس پر غور کر سکیں گے؟ ایک کڑوا سچ تو یہ ہے کہ اسرائیل نے 60 سال کے دوران جتنا ظلم فلسطینیوں پر کیا، اس سے کہیں زیادہ اور کہیں غیر انسانی مظالم تو شیعہ، سنیوں نے آپس میں ڈھا دیئے ہیں. اسرائیل کے مظالم کو اب تک عالم اسلام سب سے بڑے عتاب کے طور پر دیکھتی تھی اور شور مچاتی تھی، مگر اب کیا ہو رہا ہے؟ مسلمان تو مسلمان کی گردن کاٹ رہا ہے. کٹی ہوئی گردن سے فٹبال کھیل رہا ہے؟ سینہ چاک کرکے کلیجہ نکال رہا ہے؟ کٹی ہوئی گردنوں کی نمائش لگا رہا ہے. کیا آج تک اسرائیل نے ایسا ظلم کیا ہے! ہم اسرائیل کو ناجائز کہتے ہیں. اسرائیل کو شیطان کہتے ہیں، مگر شام سے لیکر عراق تک مسلمانوں نے جو کر دیا ، اس سے صہیونی شیطان بھی کپکپا گیا ہے. دنیا تو سب یہی کہہ رہی ہے کہ مسلمانوں سے زیادہ ظالم کوئی نہیں، حالانکہ ہم جانتے ہیں کہ موجودہ حالات خود صیہونی سازش کا نتیجہ ہیں، مگر سوال یہ ہی کہ کیا ہماری عقل پر پردہ پڑ گیا ہے؟ مسلکی تشدد کا جو بازار گرم ہوا ہے، اس نے اسلام کو رسوا کیا ہے، اس نے مسلمانوں کو ذلیل کیا ہے. عالم اسلام کو شرمندہ کیا ہے. اس وقت اتحاد سب سے بڑا ہتھیار ہو گا. یہی راستہ ہے، جو عالم اسلام کو مسلکی جنگ عظیم سے بچائے گا، مگر امریکہ ہو یا برطانیہ، سب دور سے شعلوں کا دیدار کریں گے اور مسلمانوں کو یوں آپس میں لڑتے مرتے دیکھ کر خوش ہوتے رہیں گے.
جب 2003 میں جنگ عراق کا آغاز ہوا تھا تو بش انتظامیہ کا دعوی تھا کہ صدام حسین اور القاعدہ میں سانٹھ گانٹھ ہے، مگر صدام حسین کی شہادت کے بعد امریکہ اس الزام کو ثابت نہ کر سکا. بلکہ صدام حسین نے اس وقت کہا تھا کہ عراق ہاتھوں میں جلتے ہوئے انگارے کی طرح بن جائے گا اور وہی ہوا. بش نے بھیڑیا آیا...... بھیڑیا آیا کا شور مچا کر امریکی عوام سے کہا تھا کہ اگر عراق پر ہ،حملہ نہ کیا تو القاعدہ دنیا پر حکومت کرے گا. جنگ عراق کے بعد اب بھیڑیا آگیا..... عراق میں جہاں القاعدہ کا نام و نشان نہیں تھا، اب القاعدہ ہی القاعدہ ہے یہ بش کا کارنامہ ہے. جب لیبیا میں بغاوت کی آگ بھڑکی، تو کرنل معمر قذافی چیخ چیخ کر کہتے رہے کہ دیکھو جو باغیوں کے بھیس میں ہیں ، وہ القاعدہ کے حامی ہیں، انہیں پہچانوں........ اگر میں نہیں رہا ، تو القاعدہ کرے گا لیبیا پر قبضہ، مگر اوبامہ انتظامیہ نے ایک نہیں سنی... امریکہ نے اگر کھل کر میدان نہیں سنبھالا ، تو دور سے تماشہ دیکھا، مگر تریپولی پر باغیوں کا قبضہ ہوا اور کرنل قذافی کی ہلاکت ہوئی، مگر پھر کیا ہوا؟ بن غازی میں القاعدہ کی پہلی دھمک اس وقت سنی گئی، جب امریکی سفارت خانہ پر حملہ ہوا اور القاعدہ کے جنگجوؤں نے امریکی سفیر کو ہلاک کر دیا. اس وقت امریکہ کو احساس تو ہوا کہ کرنل قذافی نے سچ کہا تھا، مگر اسکا اعتراف کرنے کی ہمت کسی میں نہیں.
اب شام میں صدر بشار الاسد کہتے رہے کہ شام کے باغی کوئی اور نہیں ، القاعدہ کے حامی ہیں، مگر کوئی سننے کو تیار نہیں ہوا. باغیوں کو ہتھیار سپلائی ہوئے، شام کی خانہ جنگی انتہا پر پہنچ گئی، مگر بشار الاسد کی فوج منظم ہے، انٹلی جنس مضبوط ہے اور عوام کی حمایت اسلئے باغی لڑ تو رہے ہیں، مگر چار سال گزرنے کے باوجود تختہ پلٹنے میں ناکام رہے، تو عراق کے تنازعہ نے اب ان باغیوں کو سرحد پار کرادی. آئی ایس آئی ایس کی شکل میں مظبوط القاعدہ اب امریکی ہتھیاروں کے ساتھ اینٹ سے اینٹ بجا رہا ہے. اس سے بس ایک بات ثابت ہوتی ہے کہ صدام ہوں ، قذافی یا اب بشار الاسد سب نے ایک بات کہی اور وہی سچ ہوئی کہ القاعدہ آجائے گا......
جو بویا وہ کاٹا
آج امریکہ دیکھ رہا ہے کہ عراق میں کیا سے کیا ہو گیا ؟ مگر امریکہ میں عراق کی جانب قدم اٹھانے کی ہمت ہے نہ حوصلہ.... امریکہ اب بھی یہ سمجھنے سے قاصر ہے کہ موجودہ حالات اسکی مشرقی وسطیٰ پالیسی کی ناکامی کا جیتا جاگتا ثبوت ہیں، کیونکہ امریکہ نے کبھی نیک نیتی سے کام ہی نہیں کیا.
جب ایران میں اسلامی انقلاب برپا ہوا اور ایک آیت الله روح الله خمینی کا ظہور ہوا، تو امریکہ نے صدام حسین کو ایران کے خلاف کھڑا کر دیا تھا. دونوں ملکوں کے درمیان 8 سال تک جنگ چلی، اس جنگ نے مسلکی خلیج پیدا کر دی. اسکے بعد صدام حسین سے ٹکراؤ ہوا، تو عراق کے شیعوں کو ورغلانا شروع کیا. صدام حسین کو شیعوں کا دشمن ثابت کیا. مغربی میڈیا نے گمراہ کن کہانیاں دکھائیں. صدام حسین کو 2003 میں اقتدار سے دور کیا اور عراق پر قبضہ، مگر جیسا عراق میں ایران کا اثر بڑھتا نظر آیا اور مقتدی الصدر نے عراق میں امریکہ کے خلاف جنگ بصرہ اور جنگ نجف میں غیر معمولی مزاحمت کا نمونہ پیش کیا ، تو امریکہ پسینہ پسینہ ہو گیا. شیعہ طاقت کے خوف میں امریکہ نے شام میں شیعوں کو اکسایا اور بشار الاسد کے کھل خلاف بغاوت کی چنگاری بھڑکا دی. آج چار سال سے شام میں مسلکی تشدد اور بغاوت جاری ہے، مگر بشار الاسد کہتے رہے کہ باغیوں میں القاعدہ نواز ہیں، مگر امریکہ نے نہیں سنی. باغیوں کو ہتھیاروں کی سوغات دی، جو ان ہی ہتھیاروں کے ساتھ اب عراق میں اینٹ اینٹ بجا رہے ہیں اور حالت ایسی ہے کہ امریکہ کیلئے عراق میں بمباری کرنی بھی مشکل ہو گئی ہے. اب ایک دوسرے پر الزامات کا دور جاری ہے. مگر حقیقت یہی ہے کہ جو بویا وہ کاٹا.
امریکہ کا کھیل ختم
عراق کے حالات اب اس بات کا ثبوت ہیں کہ مشرق وسطیٰ میں امریکہ کا کھیل ختم ہو چکا ہے اور تیل کے کھیل نے اب امریکہ کا تیل نکال دیا ہے، یہی وجہ ہے کہ امریکی صدر اوبامہ نے عراق پر بمباری کے نام پر کہہ دیا نہ بابا نہ ... اوبامہ نہیں چاہتے کہ موت کے کنویں میں قدم رکھیں. کئی دہائیوں میں ایسا پہلی مرتبہ ہوا ہے، جب امریکہ کسی بحران یا تنازعہ میں جارحیت کا جلوہ دکھانے کے بجائے سیاسی حل تلاش کر رہا ہے، دراصل عراق لیبیا اور شام میں جو کچھ ہوا ہے اس نے پورے خطہ کو جہادیوں کی جنت بنا دیا ہے. پہلے تو صرف سوڈان اور صومالیہ میں دہشت گردی کا بسیرا تھا، مگر جنگ عراق کے بعد یہ خطہ ایسا ہو گیا ہے جہاں امریکہ کیلئے قدم رکھنا مشکل ہو گیا ہے. اب افریقہ میں کرنل قذافی دور کے بعد نائیجریا سے لیکر الجزائر، سوڈان، صومالیہ، یمن، کینیا، تیونس، لیبیا میں القاعدہ کے قدموں کے نشان نظر آرہے ہیں. جہادیوں کا عرب دنیا پر قبضہ کرنے کا پلان حقیقت بنتا نظر آرہا ہے، کیونکہ عالم عرب میں کوئی ایسا ملک نہیں، جو امریکہ کے بغیر جہادیوں کا مقابلہ کر سکے اور امریکہ فیل پالیسی کے ساتھ کسی اور دلدل میں کودنے کا خطرہ مول لینے کو تیار نہیں، اوبامہ جانتے ہیں کہ اگر عراق میں فوج کو دوبارہ بھیجا، تو عوام میں رہی سہی سا کھ بھی ختم ہو جائے گی. اسلئے اوبامہ انتظامیہ محفوظ فاصلہ بنائے رکھنے میں دانشمندی مان رہی ہے، جو اس بات کی نشانی ہے کہ اب مشرق وسطیٰ کا کھیل امریکہ کے بس سے باہر ہے اور پانسہ بالکل پلٹ چکا ہے.
پڑھنے کا شکریہ اپنی قیمتی آراہ سے ضرور نوازیں
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں