Video Widget

« »

پیر، 31 مئی، 2010

قادیانیوں کی عبادت گاہوں پر شرپسندوں کے حملے

باجود اس کے کہ قادیانیوں کو پاکستان میں پسند نہیں کیا جاتا۔ لگ بھگ ہر شعبہ زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد نے قادیانیوں کی عبادت گاہوں پر حملوں کی سخت ترین الفاظ میں مذمت کی ہے۔ معاملہ یہ ہے کہ کسی بھی شخص کا تعلق خواہ کسی بھیمذہب و ملت سے کیوں نہ ہو بنیادی طور پر وہ انسان ہے اور انسان کا یوں بے دردی سے خون بہانا بدترین ظلم ہے اور اللہ تعالیٰ ظلم کو ناپسند کرتا ہے۔
ہر مذہب کے ماننے والوں میں ایسے افراد موجود ہوتے ہیں جو دوسرے مذاہب کے لوگوں کو سخت ناپسند کرتے ہیں اور ا ن پر تشدد کو بھی جائز سمجھتے ہیں لیکن خوش قسمتی کی بات یہ ہے کہ ایسے افراد ہمیشہ اقلیت میں ہوتے ہیں ورنہ یہ دنیا جہنم بن جاتی اور زمین نامی یہ سیارہ رہنے کے قابل نہ رہتا۔
قادیانیوں کی عبادت گاہوں پر حملے کرکے دہشت گردوں نے وہی رویہ پیش کیا ہے جو امریکہ اور اس کے اتحادی مسلمانوں کے خلاف افغانستان اور پاکستان کے قبائلی علاقوں میں پیش کررہے ہیں ۔ دنیا میں بڑے بڑے متعصب عیسائی ہندو اور یہودی ہیں جو مسلمانوں کو صفحہ ہستی سے مٹا دینے کی خواہش رکھتے ہیں لیکن کیا انہیں اجازت دی جاسکتی ہے کہ وہ ہماری مساجد پر حملے کریں؟ کیا فرق ہے ان لوگوں میں اور ان نئے دہشت گردوں میں جنہوں نے خیبر سے کراچی تک ان گنت مساجد میں خودکش حملے کئے اور عبادت میں مصروف لوگوں کے چیتھڑے اڑا کر رکھ دیئے۔ کیا ان ساری کرداروں کو ملانے سے یہ بات واضح نہیں ہو جاتی کہ دہشت گرد کا کوئی مذہب نہیں ہوتا اور اس کی پہچان صرف اور صرف دہشت گرد کی ہوتی ہے۔
ہم سمجھتے ہیں کہ جو لوگ قادیانیوں کی عبادت گاہوں پر حملہ آور ہوئے ہیں وہ مسلمانوں کے دوست نہیں ہوسکتے۔ اس ایک واقعے سے دنیا بھر میں قادیانیوں کو مظلوم اور مسلمانوں کو ظالم سمجھا جائے گا۔ صرف یہی نہیں دنیا بھر میں قادیانیوں کی پذیرائی بڑھے گی اور ان کے اس موقف کو درست تسلیم کیا جائے گا کہ پاکستان میں وہ نفرت ' تعصب اور تشدد کا شکار ہیں وہ تو ایک زمانے سے یہی پراپیگنڈہ کررہے تھے کہ پاکستان میں وہ خود محفوظ ہیں نہ ان کی عبادت گاہیں ' لیکن ان کے لئے یہ بات ثابت کرنا مشکل ہو جایا کرتی تھی کیونکہ عملاً صورت حال اس سے مختلف تھی۔ ان کا برطانوی مرکز چیخ چیخ کر دنیا کو بتائے گا کہ وہ پاکستان میں کتنے کڑے حالات سے دوچار ہیں اور عالمی برادری سے مدد کے خواہاں ہیں۔
جو لوگ اس طرح کے حملوں کی منصوبہ بندی کرتے ہیں یا تو ان کے پاس عقل نام کی کوئی چیز نہیں ہوتی یا پھر وہ کسی استعماری طاقت کے ایجنٹ ہوتے ہیں۔ امر واقعہ یہ ہے کہ حملہ آوروں کا تعلق اول الذکر گروہ سے ہے یا موخر الذکر گروہ سے ' انہوں نے مسلمانوں خصوصاً پاکستانی مسلمانوں کا امیج خراب کیا ہے اور یہ تاثر قائم کیا ہے کہ مسلمان اپنے علاوہ کسی دوسرے کو برداشت نہیں کرتے۔ یہ بڑا خوفناک تاثر ہوتا ہے کہ کسی ایک قوم کے بارے میں یہ تصور کرلیا جائے یا اس پر ٹھپہ لگ جائے کہ وہ برداشت سے عاری ہے۔ دوسرے لفظوں میں متشدد ہے۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ صبرو برداشت کی جس قدر تعلیم اسلام میں دی گئی ہے اتنی دنیا کے کسی مذہب میں نہیں دی گئی۔ اب یہ کیسی عجیب بات ہے کہ ایک قوم جو صبرو برداشت کی تعلیم سے متصف ہو اور اس کی خوگر بھی ہو لیکن دنیا اس کے بارے میں یہ فرض کرلے کہ اس میں برداشت کی کمی ہے یا وہ تشدد پر یقین رکھتی ہے۔ کیا ہم مسلمانوں کے پاس اتنا طاقتور میڈیا ہے جو اس تاثر کو بدل سکے؟ کیا مسلم دنیا اتنی توانا آواز رکھتی ہے جو دنیا کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک پھیل جائے اور اس تاثر کو زائل کرسکے؟ ہم تو مغلوب قوم ہیں غلبہ تو دوسری قوموں کا ہے۔ ہمیں تو بہت پھونک پھونک کر قدم اٹھانے کی ضرورت ہے کیونکہ ہم جو بھی غلط قدم اٹھائیں گے اس کے نتیجے میں یا تو کنویں میں گریں گے یا کھائی میں۔ ہمارے آگے بھی اندھیرا ہے اور پیچھے بھی اندھیرا' اس پر مستزاد کہ ہم جذباتی بھی ہیں اور لاپرواہ بھی۔ ہمیں کچھ پتہ نہیں کہ دنیا میں سربلندی حاصل کرنے کے لئے کیا کچھ کرنا پڑتا ہے؟ کچھ پانے کے لئے کیا کچھ کھونا پڑتا ہے۔ عمومی طور پر ہمارا رویہ یہ ہوتا ہے کہ د نیا جائے بھاڑ میں ' جس نے جو کرنا ہے وہ کرلے۔
ہم سمجھتے ہیں کہ یہ رویہ درست نہیں۔ یہ دنیا ایک گائوں کی مانند ہے جس میں ہر رنگ و نسل ' ملت و زبان کے لوگ بستے ہیں۔ کوئی مذہب پر یقین رکھتا ہے ' کوئی مذہب کو مانتا ہی نہیں۔ کوئی بہت زیادہ مذہبی ہے تو کوئی واجبی سا۔ کوئی مذہب پر یقین تو رکھتا ہے لیکن اس میں کوئی خاص دلچسپی نہیں لیتا۔ یہ کارخانہ قدرت کا نظام ہے۔ یہ اسی طرح چلتا آیا ہے اور اسی طرح چلتا رہے گا۔ ہم نے اگر اس گائوں میں رہنا ہے تو سب کے وجود کو تسلیم کرکے ہی رہنا ممکن ہے۔ اپنی پہچان اور شناخت کو کسی صورت نہیں بھولنا لیکن دوسروں کی پہچان اور شناخت پر حرف گیری بھی نہیں کرتی۔ راہنمائی کے لئے سیرت النبیۖ موجود ہے۔ آپۖ نے یہودیوں کو بھی برداشت کیا اور کفار مکہ کو بھی اور تو اور آپۖ نے ان کی زیادتیاں بھی برداشت کیں لیکن جب غلبہ پایا تو سب کو معاف کر دیا۔ اس ہدایت کی روشنی میں ہمیں ایسے لوگوں کے ساتھ کوئی ہمدردی نہیں ہونی چاہیے جو دوسروں کی عبادت گاہوں میں گھس کر قتل و غارت گری کرتے ہیں۔ اللہ ہمیں ہدایت نصیب کرے۔ آمین یا رب العالمین

کوئی تبصرے نہیں: