Video Widget

« »

اتوار، 6 جون، 2010

گولڈن ٹمپل حملہ سے مائو نواز تحریک تک کا بھارت






معاشرتی و سیاسی حقوق اور آزادی کی تحریکوں کا مطالبہ بہت مفید ہوتا ہے۔ بطور خاص اگر ان تحریکوں کا جنم کسی ملک کے اندر کے اپنے حالات ہوں۔ مثلاً یہ بات بہت ہی اہم ہے کہ 1947 ء میں سکھ قیادت پاکستان بننے پر ناراض تھی اور یہ سکھ قیادت ہندو قیادت کے زیر اثر تھی۔ اگر سکھ قیادت کانگریس کے زیر اثر نہ ہوتی تو وہ قائداعظم کی اس پیشکش پر ہر ضرور غور کرتی کہ وہ پاکستان میں شامل ہو کر اپنے مستقبل کو محفوظ بنا لیں۔ کیونکہ سکھوں کے اکثر مذہبی مقامات تو نئے بننے والے ملک پاکستان میں واقع تھے۔ گرو نانک کا جنم تو ننکانہ میں ہوا تھا۔ وہ ایک موحد انسان تھا۔ اسے ساری زمین تو ننکانہ کے مسلمان خاندان نے مفت عطیہ کی تھی۔ یہ مسلمان سکھ دوستی کا اظہار تھا۔ مگر ماسٹر تارا سنگھ جو 1947 ء میں فیصلہ ساز سکھ قائد تھے انہیں یہ ساری باتیں دیکھنے اور سمجھنے کی فرصت ہی نہ ملی کہ وہ تو کانگرس کے زیر اثر تھے اور سکھوں کے مفاد کی بجائے کانگریس کے مفاد میں فیصلے کر بیٹھے تھے۔ تقسیم کے بعد وزیراعظم نہرو نے سکھوں کی دریا دلی کا پہلا انعام تو یہ دے دیا کہ مشرقی پنجاب کو تین صوبوں میں فوراً ہی تقسیم کر دیا تاکہ سکھوں کی وحدت برقرار نہ رہے اور مستقبل میں وہ کوئی مسئلہ ہی پیدا نہ کر سکیں۔ سکھوں کے ساتھ وزیراعظم نہرو کا یہ حسن سلوک پہلا ظلم تھا۔ کشمیر کا مسئلہ تو تقسیم برصغیر سے بھی پہلے سے موجود تھا۔ کشمیری کہ اپنی آزادی مانگتے رہتے تھے مگر جب 1947 ء کو آزادی کا ماحول بنا تو بالکل سینہ زوری سے فضائی طریقے سے سری نگر میں فوج اتار کر وزیراعظم نہرو نے کشمیر پر قبضہ کر لیا تھا۔ یعنی ابتدائی مرحلہ میں دو کام پھرتی سے کئے گئے۔ کشمیر میں فوج اتار کر کشمیر کی پاکستان سے الحاق کی فطری خواہش کو قتل کردیا گیا تھا دوسرا کام تو بہت ہی عجیب تھا کہ سکھ قیادت تو الحاق پاکستان کی قائداعظم کی تجویز کو قبول کرنے کی بجائے کانگرس کے ساتھ تھی اور تقسیم پنجاب کے فارمولے کو قبول کر کے بھارت کا حصہ بن گئی تھی۔ اس کے باوجود بھی وزیراعظم نہرو نے سکھوں کی سرزمین کو ٹکڑے ٹکڑے کرنا ضروری سمجھا اور اسے تین صوبوں کا نام و عنوان بنا دیا تھا۔ کہنے کی حد تک ایک سکھ کو بھارت کا صدر بنایا گیا مگر پنجاب میں سکھوں کی سیاسی قوت اندراگاندھی کے لئے مسئلہ ہی بنی رہی تھی مشرقی پنجاب سیاسی طورپر غیر مطمئن رہا تھا اس ماحول میں نوجوان جرنیل سنگھ بھنڈرا والہ سامنے آئے۔ زیادہ سخت موقف کے ساتھ' اندرا گاندھی نے اپنے سیاسی سخت گیر سکھ مخالفوں کو نیچا دکھانے کے لئے جرنیل سنگھ کو نشوونما پانے کا ماحول اور فضا عطا کی تھی۔ اور جب جرنیل سنگھ بھنڈروالہ سچ مچ سکھوں کا دل و دماغ بن گیا اور سکھ قوم کا مسیحا سمجھا جانے لگا تو پھر اسے ریاست کی طرف سے کچل دینے کا راستہ اپنایا گیا تھا جرنیل سنگھ نے اپنے حامیوں کے ساتھ گولڈن ٹمپل میں پناہ لے لی۔ اس خیال سے کہ اندرا گاندھی بھلا سکھوں کے مذہبی مقام کو کیوں نقصان پہنچائے گی؟۔ مگر اندرا گاندھی نے 6 جون 84 ء کو گولڈن ٹمپل پر حملہ کرا دیا تھا کلدیپ نیئر بھارت کے تجربہ کار پارلیمانی شخص ہیں سابق سفیر ہیں اور دانشور ہیں۔ انہوں نے کئی بار اس موضوع پر قلم اٹھایا اور ایمنیسٹی انٹرنیشنل کے اس دعوے کی تصدیق کی کہ ہزاروں سکھ گولڈن ٹمپل میں قتل کر دئیے گئے تھے شاید سات ہزار سے نو ہزار تک وہ تعداد ہے جو گولڈن ٹمپل کے اندر اور اردگرد قتل کی گئی تھی۔ ذرا ماسٹر تارا سنگھ کا قائداعظم کے مشورے کہ سکھ پاکستان میں شامل ہو کر اپنا مستقبل محفوظ اور بہتر بنا لیں کو نظر انداز کرکے جواہر نہرو کادست و بازو بننے کا عمل اور پھر اندرا گاندھی کی طرف سے پہلے اپنے سکھ سیاسی مخالفین کو نیچا دکھانے کے لئے جرنیل سنگھ بھنڈرانوالہ کی نشوونما اور پھر گولڈن ٹمپل پر حملہ اور سکھوں کا قتل عام بھلا یہ سب کچھ کیا ہے؟ ہندو ذہن کی مکاری و فریب کاری ؟ کشمیریوں کے ساتھ سینہ زوری اور فوج کے ذریعے کشمیر پر قبضہ ؟ کہاں ہیں انصاف پسند وہ لوگ جو انسانی اور سیاسی حقوبق اور جمہوریت کے داعی ہیں بطور خاص امریکی لوگ کیا انہیں یہ سب کچھ نظر نہیں آتا؟ بھارت میں دوسری اقلیتیں مسلمان اور عیسائی ہیں۔ عیسائیوں کے ساتھ بجرنگ دل نے جو کچھ کیا وہ سیدھا انسانیت کا قتل ہے۔ عیسائیوں کے گرجا گھر۔ تعلیمی ادارے' مشنری ادارے' سب کچھ جلایا جاتا رہا ہے اور عیسائیوں کو اگر بیرون ملک سے رزق مل جاتا ہے تو اسے بیرونی مداخلت کہا جاتا رہا ہے۔ بجرنگ دل والے عیسائیوں کے اس لئے دشمن ہیں کہ چھوت چھات سے تنگ آئے ہوئے اور مالی طورپر بہت ہی کچلے ہوئے ہندو عیسائی بن جاتے ہیں تاکہ ہندوں کے ہاتھوں توہین سے نجات پائیں۔ مگر بجرنگ دل نے ان کا جینا حرام کیا ہوا ہے۔ مسلمان بڑی اقلیت ہیں۔ مسلمان دشمنی کی سیاست اور پھر اقتدار کا حصول بھارتی معاشرے کی تلخ ترین حقیقت ہے۔ بابری مسجد کا انہدام جو بی جے پی کا تاریخی کارنامہ ہے وہ صرف مسلمان دشمنی کی وجہ سے ظہور پذیر ہوا۔ اور اسی کی وجہ سے بی جے پی اقتدار میں آئی تھی واجپائی جیسا لبرل اور شاعر اور ایڈوانی جیسا سندھ سے ہجرت کر کے جانے والا ہندو بابری مسجد کے انہدام میں ملوث پایا جائے اور پھر انہیں اقتدار بھی مل جائے تو اسے امریکہ والے کیا کہیں گے؟ للت مودی گجرات میں مسلمان دشمنی کا نام ہے۔ ریاستی تشدد کے ذریعے مسلمان کشی کا کونسا طریقہ تھا جو مودی نے نہیں اپنایا؟ مسلمانوں کا قتل عام اور انہیں تباہ و برباد کر دیا گیا۔
سمجھوتہ ایکسپریس کو دھماکے سے اڑانے والے کرنل پر وہیت حاضر سروس کرنل تھے۔ انہوں نے مسلمانوں کو دھماکے سے قتل کرنا مذہبی کام سمجھا تھا۔ یہ سب تو اقلیتوں کے ساتھ ہوتا رہا ہے دلت نیچی ذات کے ہندو ہیں۔ گاندھی نے دلتوں کے ساتھ تعلق بنایا۔ ان کے ساتھ رہے مگر عملاً گاندھی دوٹوک ناکام ہو گئے کہ اونچی ذات کے ہندوئوں نے گاندھی کے دلتوں کو سیاسی اور معاشرتی مقام دینے کے عمل کومکمل طورپر ناکام بنا دیاتھا دلت اونچی ذات کے ہندئووں سے لڑتے رہتے ہیں۔ بندوقیں اٹھاتے ہیں اور اپنے دفاع میں کارروائیاں کرنے پر مجبور ہوتے ہیں جبکہ اونچی ذات کے ہندو انہیں غلام بنا کر رکھنے کو مذہبی کام بتاتے رہتے ہیں۔ مائو تحریک بھلا کیوں شروع ہوئی؟ یہ تحریک تقسیم برصغیر کے ساتھ ہی جلوہ گر ہوئی تھی۔ اس کا مقصد طاقتور ہندوئوں کے مقابلے میں کمزور دیہاتی ہندوئووں کوتحفظ دینا اور ان کے سیاسی اور معاشی حقوق کی جدوجہد تھا۔ کمیونسٹوں کو جو ماضی میں سیاسی کامیابیاں ملتی رہی تھیں وہ انہی علاقوں کے ووٹ تھے جہاں مائو نواز تحریک موجود ہے۔ نکسل باڑی ایک گائوں ہے جہاں ایک اجتماع ہوا اور اس تحریک کاآغاز ہوا تھا جتنا جتنا بھارت نے کشمیریوں کو کچلا ' مسلمان دشمنی کو سیاسی حربہ بنایا عیسائیوں کو قتل کیا اور ان کی املاک کو جلایا دوسری طرف اتنے ہی کمزور معاشی حالت والے ہندو مائو نواز تحریک کے زیادہ حامی بنتے گئے۔ کمیونسٹوں کی سیاست کی حمایت سے آگے بڑھ کر اپنی مسلح جدوجہد کو نیا نام دے دیا اب 20 بھارتی ریاستوں میں یہ تحریک پھیل چکی ہے۔ اس تحریک کو کسی خارجہ مدد کا الزام نہیں دیا جا سکتا۔ چدم برم ملٹی نیشنل کمپنیوں کے سیاست اور کانگریس میں نمائندے ہیں۔ کانگریس اب مکمل طورپر امریکہ نواز اور ملٹی نیشنل کمپنیوں کی نمائندہ پارٹی ہے۔ کہنے کو چدم برم ملک میں انوسٹمنٹ لانے میں مصروف ہیں مگر عملاً باہر سے آنے والی انوسٹمنٹ کے فوائد ان غریب قبائلی عوام تک نہیں پہنچتے دیتے جن کی آبائی زمینوں کے معدنی وسائل ان ملٹی نیشنل کمپنیوں کا اصل مطمع نظر ہیں۔ یوں مائو نواز باغیوں نے ریاستی اداروں اور پولیس پر حملے کرنے کا راستہ اپنایا ہوا ہے اور مائو نواز ریاست کے قیام کے لئے مسلح طورپر مصروف ہیں۔ یہ ہے بھارت کی اصلیت ۔ وہ جمہوری بھارت جو مغربی دنیا اور امریکہ کی آنکھ کا تارا ہے اور ہیلری کلنٹن جس کو ابھرتی عالمی طاقت بتاتی ہیں۔ مگر بھارت کی یہ جمہوریت اپنے ہندو عوام کی زمینیں چھین کرملٹی نیشنل کمپنیوں کو دے رہی ہے تاکہ کچھ سیاستدان مالدار ہو جائیں۔ عیسائی اس ہندو معاشرے میں ظلم کا شکار ہیں اور بجرنگ دل عیسائی کشی کو مذہبی کام کے طورپر کرتی ہے۔
واجپائی ' ایڈوانی اور بی جے پی مسلمان دشمنی کو ہندو اقتدار کا نام دیتی رہی ہے اور مودی ریاستی اداروں کی مدد سے گجرات میں مسلمانوں کا قتل عام کراتے رہتے ہیں تاکہ ہندوئوں کے ووٹ لے سکیں۔ کرنل پرودھت جیسا بھارتی فوج کا کردار سمجھوتہ ایکسپریس کو بم دھماکے سے اڑاتا ہے تاکہ پاکستان اور مسلمانوں کو تباہ کرنے کی خواہش پوری ہو سکے۔ یہ ہے اصل بھارت جو نہرو کے ہاتھوں سکھوں کی وفاء کو تین صوبوں میں تقسیم کر کے سکھ وحدت کا قتل کرتا ہے اور سکھ سیاست کو نیچا دکھانے کے لئے اندرا گاندھی کے ذریعے جرنیل سنگھ بھنڈرا والہ پیدا کرتا ہے اور پھر اسے قتل کرنے کے لئے گولڈن ٹمپل پر حملہ آور ہوتا ہے اور ا یمنسٹی انٹرنیشنل کی رپورٹ کے مطابق سات ہزار سے نو ہزار سکھوں کو مار ڈالتا ہے۔ اس کے ردعمل کہ اندرا گاندھی کا سکھ محافظ اندر نامی ہندو وزیراعظم کا قتل کرتا ہے اور پھر پورا ہندو معاشرہ معصوم اور بے گناہ عام سکھوں کے قتل عام کے لئے اٹھ کھڑاہوتا ہے۔ یہ سب کچھ کس نے کرایا؟ یہ سوال ہم ہندو نواز ہیلری کلنٹن سے کرتے ہیں جو ہمیں بتاتی ہے کہ بھارت ابھرتی ہوئی عالمی طاقت ہے۔ جی ہاں ہو گی مگر سکھ ' مسلمان' عیسائی ' مائونواز ' دلت توہیلری کی بات سن کر مسکرا رہے ہیں اور اس کا تمسخر اڑا رہے ہیں کہ عالمی طاقت ایسی ہوا کرتی ہے۔

کوئی تبصرے نہیں: