ابھی کراچی کے اولڈ ٹرمینل پر حملے کے بعد کا سوگ مکمل نہیں ہوا تھا کہ دوسری بار حملے کا شور مچ گیا. گوکہ تمام سرکاری ادارے اسے " حملہ " قرار دینے سے گریز کر رہے تھے، لیکن اے ایس ایف کی جوابی کاروائی کے دوران بے جا مسلسل فائرنگ سے حملے کے تاثر کو تقویت ملی. طالبان نے خوف پھیلانے کے اس واقعے کی ذمہ داری قبول کی ہے تو دوسری جانب خیبر ایجنسی میں پاک فضائیہ نے دہشت گردوں کی کمیں گاہوں کو نشانہ بنایا ہے. محفوظ سمجھا جانیوالا کولڈ اسٹوریج کا مقام ہی 7 افراد کیلئے موت کی جگہ ثابت ہوا. ہر پاکستانی غمزدہ ہے. دہشت گردوں کیخلاف آپریشن پر سیاسی و عسکری قیادت کا اتفاق خوش ائند ہے.
سبھی کے سبھی منافقت بھری ٹوکریوں کو سروں پر اٹھائے پھر رہے ہیں. یہاں کیا مسائل حل ہوں گے کہ اس گھر کو آگ لگی اسی گھر کے چراغ سے، ایسی کی تیسی ان دہشتگردوں کی، ذرا آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بتاو، کہ کراچی ائیرپورٹ پر ان دہشتگردوں کو کس نے گھسایا، کس کی شہ پر وہ وہاں داخل ہوئے، وہ آسمان سے اترے یا زمین سے اگ آئے. ایسے ہی دوچار غیر متعلقہ لوگوں کو پکڑ دھکڑ کر تفتیش کا مقصد؟
جو مقصد صاف نظر آتا ہے وہ بہت خطرناک ہے. افغانستان میں روسی مداخلت سے بھی زیادہ خطرناک. حکومت میں اگر جرات اور نیک نیتی ہوتی تو اب تک سبق سکھا چکی ہوتی. استاد اقبال فرماتے ہیں کہ جبتک لاللچی زندہ ہیں تب تک دھوکے بازوں کا روزگار قائم ہے. جمہوری ریاستوں کو عرب بادشاہوں میں تبدیل کرنا کبھی بھی ممکن نہیں ہے، لیکن خواب دیکھنے والوں کو کون سمجھائے. کرنل قذافی، رضا شاہ پہلوی اور صدام حسین وقت آخر تک خوابوں کے حصار سے نہ نکل سکے اور مارے گئے. نجیب الله بھی یہی سمجھتا تھا کہ طالبان اسکے بغیر حکومت نہیں چلا سکیں گے. کیا پاکستان میں کوئی حکومت چل رہی ہے؟ کوئی نظام ہے؟ انسان کی تاریخ پڑھو، دس ہزار سال پہلے بھی تو انسان تھا، پتھر کے زمانے کا انسان یاد کرو، نہ رشتے نہ ناتے، نہ ماں، نہ بیٹی، نہ تہذیب، نہ اخلاق، نہ قانون نہ قانونی تقاضے جسکے ہاتھ میں پتھر آیا اور جب موقع ملا اس نے دوسرے کو مار دیا تاریخ بتاتی ہے کہ انسانوں نے انسانوں کا گوشت کھایا اور پھر بھی انسان زندہ ہے، نسل کشی کی اور آج کے اس جدید دور میںبھی سات ارب کی آبادی ہے. یہ نہیں کہ خوراک، بجلی یا پانی نہ ہونے سے، صنعت و حرفت ختم ہو جانے سے اور زراعت کے ختم ہو جانے یا آبادی کے خوراک کے مقابلے میں بڑھ جانے سے انسان ختم ہو جاتا ہے. انسان زندہ رہتا ہے لیکن ذلت آمیز اور تکلیف دہ حالات میں زندہ رہتا ہے.
آج کا اصل مسئلہ زندگی کے ادراک کا ہے. پاکستان کے اکثریتی عوام یہ کہتے ہیں کہ کرم ہے اور شکر ہے کہ پاکستان پھر بھی قائم ہے. اس ایک جملے سے صورت حال، مستقبل اور تعمیر و ترقی کا اندازہ کر لیا جانا چاہئے لیکن موضوع دگر ہے کہ یہ طالبان، دہشتگرد یا یہ مائنڈ سیٹ جسے بنانے میں اسٹیبلشمنٹ نے 40 سے 50 سال لگائے اور جسے ختم کرنے ، میں اسٹیبلشمنٹ اس وقت لیت و لعل سے کام لے رہی ہے بالکل اسی طرح اسٹیبلشمنٹ بھی پھنسی ہوئی ہے. وزیراعظم، حکومت اور حکمرانی کے معاملے میں ابہام کا شکار دکھائی دیتے ہیں. لہذا یہ مذاکرات جس طرح اپنے منطقی انجام کو پہنچے ہیں یہی انکا مقصد تھا اور اس پر تقریباً سبھی اہل دانش نے یہی رائے دی تھی کہ ان مذاکرات کا یہی انجام ہو گا
طالبان کے تمام مطالبے مان لیے جایئں اور انہیں پاکستان کے چاروں صوبوں میں حکومت بھی دے دی جائے تو یہ قتل و غارت گری نہیں روکیں گے بلکہ یہ ریاستی سطح پر بڑھ جائے گی. فرقہ واریت کے حوالے سے خانہ جنگی شروع ہو جائے گی، آخر وہ کام جس کا ایک ہی انجام اور ایک ہی حل ہے اسکے حوالے سے بھی اگر اسٹیبلشمنٹ ہے سول حکومت آپس میں گیم کر رہے ہیں تو خود فریبی میں مبتلا ہیں. جڑی بوٹیوں کو محض تراشا نہیں جاتا تلف کیا جاتا ہے. وزیراعظم کی طرف سے یہ بیان کہ طالبان کو انکی زبان میں جواب دیا جائے گا، عملی شکل میں سامنے کیوں نہیں آیا؟ دکھ اور تکلیف کی بات یہ ہے کہ کسی میں اتنی جرات نہیں کہ سچی بات کھل کر سر عام کہہ دے جو وہ جانتا ہے.
_______________________________________________________________
ڈاکٹر افتخار حسین بخاری
پڑھنے کا شکریہ
اپنی قیمتی آراہ سے ضرور نوازیں
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں