ازبکستان کی باغی اور انتہا پسند اسلامک موومنٹ آف ازبکستان (IMU) کی افغانستان اور بھارت نہ صرف حمایت بلکہ سرپرستی بھی کرتے ہیں. IMU نے افغانستان کے بڑے علاقے میں دہشتگردی کے کیمپ قائم کئے ہوئے ہیں. پاکستان میں بھارت کے ایما پر ہونے والی متشدد اور ہلاکت آفریں کاروایئوں میں IMU سے متعلق ازبک باشندے بھی شامل ہیں. اس تنظیم کی وزیرستان میں بھی موجودگی ثابت ہے.
یہ حقیقت طشت ازبام ہو چکی ہے کہ دہلی پارلیمنٹ اور ممبئی حملے بھارتی حکومت اور ایجنسیوں کے کارنامے تھے. ان حملوں کو جواز بنا کر بھارت نے اس وقت ایک تیر سے دو شکار کرنے کا فیصلہ کیا تھا. ایک تو ہمیشہ کی طرح پاکستان پر الزام دھرا کہ اسے دہشت گرد ملک ثابت کرنا اور دوسرا بھارتی پارلیمنٹ سے دہشت گردی کے نام پر اندھے قانون " ٹاڈا " کو پاس کروانا جس کیلئے پارلیمنٹ رضا مند نہیں تھی. بھارت کی خود ساختہ دہشت گردانہ کاروائیوں کی وجہ سے پارلیمنٹ نے انسانی حقوق کے دشمن بل کو پاس کر دیا. اس بل کے بعد بھارت سے آزادی مانگنے والے علاقوں اور مسلمانوں کے گرد شکنجہ کس دیا گیا.
بھارت کل بھی پاکستان کا دشمن تھا اور آج بھی کٹر مخالف ہے.کل مشرقی پاکستان کی علیحدگی کی صورت میں ہماری پیٹھوں میں خنجر گھونپا اور آج فاٹا اور بلوچستان میں سرگرم ہے. دنیا جانتی ہے کہ بھارت براہ راست اور افغانستان کے راستے دہشت گردی پاکستان ایکسپورٹ کر رہا ہے. اس بات کی سند کے طور پر بھارتی مسلح افواج کے سابق سربراہ جنرل وی کے سنگھ کا اپنی کتاب میں یہ اعتراف کافی ہے کہ انہوں نے خصوصی ملٹری انٹیلی جنس یونٹ بنا کر پاکستان میں خفیہ آپریشن کئے. دوسری جانب افغان حکومت اور نادرن الائنس بھارت کے ہاتھوں کٹھ پتلی بنکر پاکستان کے خلاف سرگرم ہیں. افغانستان کے اکابرین اور رہنما یہ حقیقت بهول گئے کہ جب افغانستان کی سر زمین ان پر تنگ ہو گئی تھی تو پاکستان نے اپنے باڈر، دامن اور دل دریچے ان کیلئے کھول دیئے تھے. 60 لاکھ مہاجرین نے پاکستان کا رخ کیا تھا. ہمارے احسانات کا بدلہ صدر حامد کرزئی، عبداللہ عبداللہ اور حکومتی اہلکار بھارتی اشاروں پر ناچ کر ادا کر رہے ہیں، جبکہ حقیقت یہ ہے کہ افغانستان پاکستان کے دشمنوں ملا فضل الله، عبدالولی، خراسانی اور دیگر کو نہ صرف پناہ دیئے ہوئے ہے بلکہ انہیں بھارت کی سرپرستی میں قائم کیمپوں میں دہشتگردی کی تربیت، گولہ بارود اور نقد رقوم دی جاتی ہیں.ازبکستان کی باغی اور انتہا پسند اسلامک موومنٹ آف ازبکستان (IMU) کی افغانستان اور بھارت نہ صرف حمایت بلکہ سرپرستی بھی کرتے ہیں. IMU نے افغانستان کے بڑے علاقے میں دہشتگردی کے کیمپ قائم کئے ہوئے ہیں. پاکستان میں بھارت کے ایما پر ہونے والی متشدد اور ہلاکت آفریں کاروایئوں میں IMU سے متعلق ازبک باشندے بھی شامل ہیں. اس تنظیم کی وزیرستان میں بھی موجودگی ثابت ہے.
حالات و واقعات کا تجزیہ کیا جائے تو یہ بات اظہرمن الشمس ہے کہ بھارت و چند ممالک اٹیمی پاکستان سے خوفزدہ ہیں یا وہ اسے برداشت نہیں کر پا رہے. مقام افسوس ہے کہ ہمارے رہنما حالات و حقائق سے آگاہی رکھنے کے باوجود کبوتر کی طرح آنکھیں بند کیئے ہوئے ہیں. ہمیں مزید وقت ضائع کیئے بغیر اپنی خارجہ و داخلہ پالیسیوں کو تبدیل کرنا چاہئے. ہمیں سوچنا چاہئے کہ ہم امن کے داعی اور خواہش مند ہیں مگر دنیا پر ہمارا منفی اثر کیوں پڑتا ہے. ہمیں اصلاح کی ضرورت ہے. ہمیں چاہئے کہ اقوام عالم اور دوست ممالک کو اعتماد میں لیں. بھارت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر تنبیہہ کی جائے. انہیں بتایا جائے کہ ہم خطے میں امن چاہتے ہیں. اور آپ کے ساتھ بہترین تعلقات رکھنا چاہتے ہیں. انہیں باخبر کریں کہ اگر وہ پاکستان دشمنی سے باز نہ آئے تو ہم اپنی سالمیت اور بقاء کیلئے کوئی سخت قدم اٹھانے سے بھی گریز نہیں کریں گے.
پاکستان کو تباہ کرنے کا خواب دیکھنے والے یقیناّ ناکام ہوں گے. حکومت اور سیکورٹی ایجنسیوں کا فرض ہے کہ وہ دہشت گردوں اور تخریب کاری کی راہوں کو روکیں. انہیں نیست و نابود کر دیں. اس کیلئے ضروری ہے کہ ملک سے وی آئی پی کلچر ختم کیا جائے. کسی چیک پوسٹ، چوکی، گیٹ یا ادارے میں ڈیوٹی سر انجام دینے والے سپاہی کے پاس اتنا اختیار ہو کہ ہر آنے جانے والے بشمول کسی کورکمانڈر، آئی جی، ممبران قومی و صوبائی اسمبلی ، سینیٹرز، محکموں کے سربراہوں، اعلی افسرشاہی اور وزراہ کی شناخت کے بعد ہی سرکاری املاک میں داخل ہونے کی اجازت دے. اس وی آئی پی نظام کے تحت آج دہشت گرد جعلی یونیفارم پہن کر پر تعیش اور بڑی گاڑیوں میں سوار اپنے اہداف تک پہنچنے میں آسانی سے کامیاب ہو جاتے ہیں.
دشمن جلد ہی ایک گہری چال چلنے والے ہیں. افغانستان کی سرزمین پر انہوں نے وزیرستان سے نقل مکانی کرنے والوں کیلئے کیمپس کھول دیئے ہیں. بھارت مشرقی پاکستان میں روا رکھی جانے والی گھناؤنی سازش کو دہرانے کی کوشش میں ہے. حکومت فوری طور سے وزیرستان اور فاٹا کے محب وطن عوام سے رابطہ کرے، بھرپور آپریشن شروع کرنے سے قبل حکومت ان قبائل کو انکے ماحول کے مطابق دوسری جگہوں پر آبرومندانہ طور سے منتقل کرے. انکی ضروریات کا خیال رکھا جائے. آپریشن کے دوران اس بات کا خاص خیال رکھا جائے کہ اسکی زد میں معصوم اور بیگناہ افراد نہ آئیں. یہ نہ ہو کہ یہ سادہ لوح باشندے دشمنوں کی چالوں کا شکار ہو جایئں.
حکومت کا فرض اولین ہے کہ وہ ان دہشت گردوں سے نپٹنے کیلئے واضح اور ٹھوس حکمت عملی مرتب کرے. آدھا تیتر آدھا بٹیر والا معاملہ مسائل کا حل نہیں. تعمیراتی منصوبے تیار کرنے کی بجائے پیسہ عوام پر خرچ کرکے بدامنی کے جن کو قابو میں لایا جائے. راہ فرار اختیار کرنے کی بجائے مسائل و مشکلات کا مردانہ وار مقابلے میں ہی سالمیت اور بقاء پنہاں ہے.
ریاض خان
پڑھنے کا شکریہ
اپنی قیمتی آراہ سے ضرور نوازیں
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں