مذہبی انتہا پسند ملک کو تباہ کرنے پر تلے ہیں جبکہ ریاست انکی سرگرمیوں کو روکنے کیلئے کوئی توجہ نہیں دے رہی ہے. ان لوگوں کی ذہنیت کو تبدیل کرنے کی فوری ضرورت ہے، جو عسکریت پسندوں کو مسلمان سمجھتے ہیں اور خیال کرتے ہیں کہ وہ معاشرے کا ایک حصّہ ہیں
فتح جنگ کراسنگ پر خودکش حملہ، باجوڑ اجنسی میں بارودی سرنگ کا ،دھماکہ اور ایسے کئی حالیہ واقعات میں، جناح انٹرنیشنل ٹرمینل، کراچی پر حملہ، ان سب واقعات کے نتیجے میں پاکستان کی مسلح افواج کے جوان اور افسران اور قانون نافذ کرنے والے اہلکاروں کی شہادت ہوئی، قومی اثاثوں اور اداروں کو نقصان پہنچایا گیا، مگر بعض رہنما کہتے ہیں کہ ایسے دہشت گرد عناصر کو دیوار سے نہیں دل سے لگایا جائے. اسی گروپ کے ایک رہنما ماضی میں یہ کہہ چکے ہیں کہ دہشت گرد شہید ہیں جبکہ فوجی اہلکاروں کو شہید نہیں کہا جائے گا. وزیراعظم نواز شریف نے اقتدار سنبھالنے کے بعد دہشت گردی کے عفریت کو قابو کرنے کیلئے تمام سیاسی جماعتوں اور فوجی قیادت کو اعتماد میں لیکر، دہشت گردی کے خلاف متفقہ پالیسی مرتب کی. اس پالیسی کے تحت دہشت گردوں سے مذاکرات کو اولیت دی گئی.
حکومت کی ٹیم نے انتہائی سنجیدگی کے ساتھ مزاکرات کا آغاز کیا مگر اس دوران ، خودکش حملے جاری رہنے پر، وزیراعظم نواز شریف کو کہنا پڑا کہ معاملات اس طرح نہیں چل سکتے بلکہ دہشت گردوں کو اپنی کاروائیاں روکنا ہونگی. وزیراعظم کی حکمت عملی کام آئی اور دہشت گردی کی کاروائیوں میں کمی آگئی مگر دہشت گرد، نت نئی اور من مانی شرائط لیکر حکومت پر دباؤ بڑھاتے رہے. اس دوران بارہا ایسے واقعات کا ارتکاب کیا گیا، جس کا نشانہ فوجی اہلکار اور قانون نافذ کرنے والے ادارے تھے. ان دہشت گردوں میں مقامی لوگوں کے علاوہ غیر ملکی عناصر بھی ہمیشہ کی طرح شامل تھے. حکومت نے پرامن مذاکرات کو جاری رکھنے کیلئے ، صبر و ہمت اور برداشت کا جو مظاہرہ کیا، اس پر حکومت کو عوامی تنقید کا سامنا بھی کرنا پڑا اور مجبور ہو کر دہشت گردی کے ہر واقعہ کے بعد، جوابی کاروائی کا فیصلہ کیا، جس پر دہشت گردوں کے ہمدردوں کو یہ کہنے کا موقع مل گیا کہ انہیں دیوار سے نہیں لگایا جائے. حیرت ہے کہ اسلامی تعلیمات کا پرچار کرنے والی، یہ سیاسی جماعت، کس ذہن اور کن اسلامی تعلیمات اور قرانی احکامات کے تحت، دہشت گردوں کو دل سے لگانے کی بات کرتی ہے .
بعض سیاسی جماعتیں اور ناقدین ایسی حکومتی جوابی کاروائیوں پر بھی کہتے دکھائی دیتے ہیں کہ ایسی کاروائیوں سے بیگناہ لوگ مارے جاتے ہیں جبکہ عسکری ذرائع اس بات کی تردید کرتے ہوے کہتے ہیں کہ جوابی کاروائیاں دہشت گردوں کی موجودگی کے ٹھوس شواہد کی بنیاد پر کی گئیں. پاکستان کے امن پسند عوام بھی یہ جاننا چاہتے ہیں کہ دہشت گردوں کے گروہ، قومی اہمیت کی تنصیبات کو نقصان پہنچا کر، کس کے مقاصد حاصل کرنا چاہتے ہیں ؟ صرف ایک دشمن ملک، دوسرے ملک کے قومی اثاثوں تنصیبات اور اسکی فوج کو نشانہ بناتا ہے. کیا ایسے عناصر کو دل سے لگانا چاہئے؟ قبائل کا نام لیکر دہشت گردوں سے ہمدردی کا اظہار کرنے والوں کو اب اپنا واضح موقف پیش کرنا چاہئے کہ پاکستان کے ساتھ ہیں یا پاکستان تباہ کرنے والے عناصر کے ساتھ. کراچی کے بین الاقوامی ہوائی اڈے کو نشانہ بنانے والے، پاکستان کی معیشت کی شہ رگ کو کاٹنے کا پیغام دے رہئے ہیں. وہ دنیا کو باور کرانا چاہتے ہیں کہ پاکستان کسی بھی صورت سفر کیلئے محفوظ ملک نہیں.
ابھی کچھ دن پہلے پاکستان سے بھیجی گئی ٹرین کو، سکھ یاتریوں کے بغیر بھارت نے یہ کہہ کر واپس کر دیا کہ پاکستان میں ٹرینوں کو آگ لگا دی جاتی ہے. حالانکہ پاکستان کی تاریخ میں ایسا کوئی واقعہ پیش نہیں آیا . سکھ یاتریوں کو بھارت نے بھیڑ بکریوں کی طرح شدید گرم موسم میں ناموزوں ٹرانسپورٹ کے ذریعے پاکستان پہنچایا، شائد اس لئے سکھوں نے بھارت سمیت، دنیا بھر میں 1984 میں امرتسر کے مذہبی مقام گولڈن ٹمپل پر بھارتی فوج کشی کی یاد منائی تھی. اور اس سے اگلے دنوں میں کراچی کے بین الاقوامی ہوائی اڈے پر بھارتی ساختہ ہتھیاروں سے حملہ کردیا جاتا ہے. بلاشبہ پاکستان ایک ذمہ دار ملک ہے اور ہر قدم پر بردباری کا مظاہرہ کرتا آیا ہے مگر انتہا پسند ہندو جماعت بی جے پی کے اقتدار میں آنے کے بعد پاکستان میں ہونے والی یہ تازہ کاروائی بہت سے سوالوں کو جنم دے رہی ہے.
طاہر پرویز
پڑھنے کا شکریہ
اپنی قیمتی آراہ سے ضرور نوازیں
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں