ہندوستانی فوج کے سابق سربراہ اور اب وفاقی وزیر جنرل وی کے سنگھ نے فوج کے نامزد سربراہ پر بے گناہوں کے قاتلوں اور ڈاکہ ڈالنے والوں کو تحفظ فراہم کرنے کی کوشش کا الزام لگایا ہے. جنرل سنگھ اور نامزد سربراہ لیفٹنٹ جنرل دلبیر سنگھ سوہاگ کے درمیان اختلافات پرانے ہیں. جنرل سنگھ نے فوج کے سربراہ کی حیثیت سے سے جنرل سوہاگ کے خلاف تادیبی کاروائی کی تھی لیکن فوج کے موجودہ سربراہ جنرل بکرم سنگھ نے عہدہ سنبھالنے کے چند ہی دنوں کے اندر یہ حکم واپس لے لیا تھا. لیکن جنرل وی کے سنگھ کے بیان کے پس منظر میں پارلیمان میں بات کرتے ہوئے وزیر دفاع ارون جیٹلی نے کہا کہ فوج کی تقرریوں کو سیاست سے الگ رکھا جانا چاہئے
جہاں تک حکومت کا سوال ہے، جنرل سوہاگ کی تقرری حتمی ہے. یہ تنازع فوج کے ایک انٹیلی جنس یونٹ کی سرگرمیوں کے بارے میں ہے. الزام یہ تھا کہ دسمبر 2011 میں شمال مشرقی ریاست آسام کے جورہٹ علاقے میں اس یونٹ نے غیر قانونی کاروائیاں کی تھیں لیکن اس وقت کے کورکمانڈر جنرل سوہاگ نے اس یونٹ کے خلاف کوئی کاروائی نہیں کی. تاہم فوج کا کہنا ہے کہ اس واقعے کے وقت جنرل سوہاگ چھٹی پر تھے اور قصوروار پائے جانے والے فوجیوں کو سزا دی جا چکی ہے.
جنرل سوہاگ کو فوج کا نیا سربراہ نامزد کیے جانے کے خلاف سپریم کورٹ میں ایک پٹیشن دائر کی گئی تھی جس میں یہ الزام لگایا گیا ہے کہ (کانگریس کی ) حکومت نے انکی تقرری میں " طرفداری " سے کام لیا ہے. یہ کیس سپریم کورٹ میں ہے. جہاں وزارت دفاع نے جنرل سوہاگ کی تقرری کے دفاع میں ایک حلف نامہ داخل کیا تھا جس میں جنرل وی کے سنگھ کی جانب سے تادیبی کاروائی کو " غیر ضروری اور غیر قانونی " بتایا گیا ہے. وزارت دفاع کے اس حلف نامے کے بعد کانگریس نے مطالبہ کیا ہے کہ جنرل سنگھ یا تو خو مستعفی ہو جائیں یا انہیں برخاست کیا جائے کیونکہ حلف نامے میں انکےلئے جو زبان استعمال کی گئی ہے اسکے بعد انکے وزارتی کونسل میں قائم رہنے کا کوئی جواز نہیں ہے. لیکن جنرل سنگھ نے فورن ہی ٹویٹر پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا: " اگر یونٹ بے گناہوں کو قتل کرے، ڈکیتی ڈالے اور پھر نہیں ٹھہرایا جانا چاہئے؟ مجرموں کو آزاد گھومنا چاہئے ؟ جنرل سوہاگ 31 جولائی کو اپنے عہدے کی ذمہ داری سنبھالیں گے.
بتایا جاتا ہے کہ وزیر دفاع ارون جیٹلی نے حلف نامے میں استعمال کی جانے والی زبان پر وزارت دفاع کے افسران کو آڑے ہاتھوں لیا ہے، لیکن قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ حلف نامہ کانگریس کی حکومت کے دوران بھی فوج کے ٹربیونل کے سامنے داخل کیا گیا تھا. جنرل وی کے سنگھ نے بھی کہا کہ یہ وہی حلف نامہ ہے جو یو پی اے کی حکومت کے دوران فوج کے ٹریبونل کے سامنے داخل کیا گیا تھا، اسمیں نیا کیا ہے؟
جنرل سنگھ، جواب شمال مشرقی ریاستوں اور خارجہ امور کے وزیر ہیں، مئی 2012 میں ریٹائر ہو گئے تھے لیکن عہدہ چھوڑنے سے پہلے انہوں نے مشرقی کمان کے سربراہ کی حیثیت سے جنرل سوہاگ کی تقرری روکنے کی کوشش کی تھی. اگر جنرل سوہاگ کو یہ عہدہ نہ ملتا تو وہ فوج کے سربراہ کی ڈور سے باہر ہو جاتے.
جنرل وی کے سنگھ اور کانگریس کی حکومت کے درمیان انکی تاریخ پیدائش کے متعلق تنازعے پر تلخی اسقدر بڑھ گئی تھی کہ جنرل سنگھ نے فوج کے سربراہ کے عہدے پر فائز رہتے ہوئے حکومت کے خلاف سپریم کورٹ سے رجوع کیا تھا لیکن عدالت نے انکے موقف سے اتفاق نہیں کیا تھا.
پڑھنے کا شکریہ
اپنی قیمتی آراہ سے ضرور نوازیں
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں