شدت پسندی نے معاشرتی زندگی کو خوف کے حصار میں لے رکھا ہے اس سے پوری قوم نفسیاتی دباؤ کا شکار ہے. دہشت گردی کی وارداتوں نے کاروباری مراکز اور صنعتی و تجارتی سرگرمیوں کو ایک طرح سے ختم کرکے رکھ دیا ہے.
پاک فوج کی طرف سے شدت پسندوں کے خلاف شمالی وزیرستان میں " ضرب عضب " آپریشن کامیابی سے جاری ہے. فورسز کی جانب سے میر علی، میران شاہ اور دیگر علاقوں میں طیاروں سے بمباری کرکے شدت پسندوں کے متعدد ٹھکانوں کو تباه کیا گیا اور انہیں گھیرے میں لیکر فرار ہونے کی کوشش ناکام بنائی جا رہی ہیں. شدت پسندوں کی نقل و حرکت روکنے کیلئے باقی ایجنسیوں سے سرحد کو مکمل طور پر سیل کر دیا گیا ہے. آپریشن میں جیٹ طیاروں کے علاوہ جنگی ہیلی کاپٹر بھی حصہ لے رہے ہیں. افواج پاکستان کی پوری کوشش ہے کہ پاک افغان سرحد کی مکمل طور پر نگرانی کی جائے تاکہ یہ لوگ یہاں سے نکل کر افغانستان داخل نہ ہو سکیں. آئی ایس پی آر کے مطابق ابتک ہلاک ہونے والے شدت پسندوں کی بڑی تعداد ازبک دہشتگردوں کی بتائی جاتی ہے جو بیرونی اشاروں پر پاکستان کو میدان جنگ بنانے کی سازشوں میں ملوث ہیں.آپریشن کے دوران ابتک دو سو سے زائد دہشت گرد ہلاک جبکہ پاک فوج کے متعدد جوان بھی شہید ہوئے ہیں.قبائلی علاقوں سے متاثرہ خاندانوں کی بڑی تعداد محفوظ علاقوں میں نقل مکانی کر رہی ہے. بنوں میں پھچلے چار دن سے کرفیو نافذ ہے جسکی وجہ سے ہزراروں کی تعداد میں متاثرہ خاندانوں کو وہاں سے نکلنے میں سخت مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے.
شمالی وزیرستان میں حالات کافی دیر سے خراب تھے اور اس بات کی پختہ اطلاعات تھیں کہ ملک بھر کے مختلف شہروں و علاقوں میں والی دہشتگردی ، بم دھماکوں اور خود کش حملوں میں ملوث دہشت گرد انہی علاقوں میں پناہ لیئے ہوئے ہیں. بھارت و امریکہ کی خفیہ اایجنسیوں نے یہاں وسیع نیٹ ورک رکھا ہے اور افواج پاکستان و سیکیورٹی اداروں پر حملے کرنے والوں کو ہر قسم کے وسائل، جدید اسلحہ ، حساس مقامات کے نقشے اور دیگر معلومات فراہم کی جا رہی ہیں. شمالی وزیرستان میں موجود دہشت گردوں کی جانب سے افواج پاکستان کو بم دھماکوں اور خودکش حملوں کے نتیجہ میں بے پناہ نقصانات اٹھانا پڑے. قومی املاک کو بار بار نشانہ بنایا جاتا رہا. ہزاروں کی تعداد میں افواج پاکستان اور عام شہری جاں بحق ہوئے جس پر اگرچہ پاکستان کے مختلف طبقات کی طرف سے آپریشن کے مطالبات بڑھتے جا رہے تھے مگر پاکستانی فوج اور حکومت کی جانب سے اس آپریشن سے گریز اور مذاکرات سے مسائل حل کرنے کی خواہشات کا اظہار کیا جاتا رہا. حکومت پاکستان کی جانب سے ایک اعلی سطحی مذاکراتی ٹیم بھی تشکیل دی گئی اور طالبان سے مذاکرات کئے جاتے رہے کہ کسی طرح انہیں قومی دھارے میں لایا جائے تاکہ ملک سے دہشت گردی کا خاتمہ ہوا اور پاکستانی امن و سکون سے رہ سکیں مگر یہ مذاکرات کامیاب نہیں ہو سکے. ملک بھر کی مذہبی و سیاسی جماعتوں کی جانب ملک گیر تحریک چلائی گئی اور ملک کے کونے کونے میں جہاں حکومت پاکستان کو اس بات کا احساس دلایا گیا کہ پاکستان میں اس وقت جو مسائل درپیش ہیں وہ ماضی میں کی گئی غلطیوں اور نام نہاد دہشت گردی کے خلاف جنگ میں حصہ لینے کا نتیجہ ہیں وہیں پر اس بات کی طرف زور دیا جاتا رہا کہ حکومت اپنی غلطیوں کی اصلاح کرتے ہوئے محب وطن قبائلیوں کو اعتماد میں لے اور طالبان سے مذاکرات و مفاہمت کا راستہ اختیار کیا جائے لیکن جب بھی مذاکرات کامیابی کی طرف بڑھنا شروع ہوئے امریکہ کی طرف سے ڈرون حملے کرکے انہیں سبوتاژ کیا جاتا رہا. بعدازاں ہم نے دیکھا کہ بھارت و امریکہ کی مداخلت اس قدر بڑھ گئی کہ امریکہ کو ڈرون حملے کی بھی خاص ضرورت نہیں رہی اور دہشت گردوں نے مذاکرات کے بجائے قتل و غارت کا راستہ ہی اختیار کیا اور مذاکرات کو محض خود کو مظبوط کرنے کیلئے ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے کی کوشش کی.
کراچی ائیرپورٹ پر جس طرح حملہ کیا گیا، سیکورٹی اداروں اور وہاں کھڑے طیاروں اور دیگر قومی املاک کو نشانہ بنا کر ملک کو اربوں روپے کا نقصان پہنچایا گیا اسکے بعد ملک بھر کی مذہبی ، سیاسی و سماجی تنظیموں اور قوم کے ہر طبقہ کا مطالبہ یہی ہے کہ شمالی وزیرستان میں بھر پور آپریشن کرکے دہشت گردی کا مکمل خاتمہ کیا جائے. اس وقت جب آپریشن شروع ہو چکا ہے تو اس بات کا ضرور خیال رکھا جانا چاہئے کہ قبائلی عوام نے ہمیشہ وطن عزیز کی سلامتی و استحکام کیلئے قربانیاں پیش کیں اور دفاع پاکستان کی جدوجہد میں میں نہ صرف حصہ لیا بلکہ ہر اول دستہ کا کردار ادا کیا ہے. اس لئےآپریشن کے دوران محب وطن قبائلی عوام جن کا دہشت گردوں سے کوئی لینا دینا نہیں ہے انکے جان و مال کو کوئی نقصان نہیں پہنچنا چاہئے
حبیب الله
پڑھنے کا شکریہ
اپنی قیمتی آراہ سے ضرور نوازیں
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں