Video Widget

« »
ضرب عضب وزیرستان پاکستان فوج نواز شریف طالبان ازبک دہشتگرد لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
ضرب عضب وزیرستان پاکستان فوج نواز شریف طالبان ازبک دہشتگرد لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں

اتوار، 22 جون، 2014

آپریشن ضرب عضب اور امن و سکون کی قومی خواہش


 ملک میں گزشتہ بارہ تیرا سال کے عرصے میں دہشت گردی کی بھینٹ چڑھنے والے پاکستانی فورسز کے جوانوں اور عام شہریوں کی تعداد پچاس ہزار سے زائد ہو چکی ہے اور ملی نقصان ایک کھرب سے بڑھ چکا ہے. ایسے سنگین حالات کے باوجود اگر اب بھی کوئی فرد یا جماعت دہشت گردی کے خاتمے کیلئے مذاکرات کی راہ دکھاتی  اور مذاکرات پر ہی اصرار کرتی ہے تو اسے ملک کا بہی خواہ کس طرح قرار دیا جا سکتا ہے؟



 کئی عشروں سے جاری سفاکانہ دہشت گردی نے ملک میں بہت خون بہا دیا ہے. امن و امان بدامنی کے گرداب میں ڈوب رہا ہے قومی معیشت سرمایہ کاری کا عمل رکنے سے پستی میں ہچکولے کھا رہی ہے. دہشت گردی کا عفریت ہزاروں پاکستانیوں کو نگل چکا ہے. اربوں کے مالی نقصان کا ملک و قوم کو سامنا ہے جبکہ ان   تمام نقصانات و فتنہ سازیوں کے باوجود طالبان آج بھی دھمکیاں دے رہئے ہیں کہ ہمارے خلاف جاری آپریشن اسلام آباد و لاہور میں حکومتی ایوانوں کو جلا دے گا جبکہ نواز شریف کا یہ کہنا بھی قابل غور ہے کہ دہشت گردی اور مذاکرات ساتھ ساتھ نہیں چل سکتے. وقت آگیا ہے کہ دہشت گردوں کے آخری ٹھکانے تک شدت پسندوں کے خلاف جنگ جاری رکھی جائے تاکہ حالیہ آپریشن ہمارے خوابوں کی تعبیر کا پیش خیمہ ثابت ہو سکے.

 یہ حقائق کسی سے پوشیدہ نہیں کہ گزشتہ بارہ تیرہ سال کے عرصے میں دہشت گردی بھینٹ چڑھنے والے پاکستانی فورسز کے جوانوں اور عام شہریوں کی تعداد پچاس ہزار سے زائد ہو چکی ہے اور مالی نقصان ایک کھرب سے بڑھ چکا ہے. ایسے سنگین حالات کے باوجود اگر اب بھی کوئی فرد یا جماعت دہشت گردی کے خاتمے کیلئے مذاکرات کی راہ دکھاتی اور مذاکرات پر ہی اصرار کرتی ہے تو اسے ملک کا بہی خواہ کس طرح قرار دیا جا سکتا ہے؟ اس بات کو بھی نہیں جھٹلایا جا سکتا کہ وزیراعظم پاکستان نواز شریف جو بغیر خون خرابے کے ملک میں قیام امن کیلئے حکومت  طالبان مذاکرات کے خود بہت بڑے حامی تھے، یہ کہنے پر مجبور ہو چکے ہیں کہ مذاکرات کی بھرپور کوششیں کی گئیں مگر دہشت گرد ملک میں قیام امن کیلئے کسی نرمی یا رعایت کو خاطر میں نہ لائے.وقت آگیا کہ اب دہشت گردوں کے ساتھ سختی سے نمٹا جائے اور ملک و قوم کے مستقبل کو پرامن بنانے کیلئے ہر ممکن کیے جائیں.


 گزشتہ روز وزیراعظم نواز شریف نے قومی اسمبلی اور سینٹ میں خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ آپریشن ضرب  عضب   حتمی مقاصد کے حصول تک جاری رہے گا. پوری قوم کو اپنی مسلح افواج کا ساتھ دینا ہو گا. ہم کسی قیمت پر ملک کو دہشت گردوں کی پناہ گاہ نہیں بننے دیں گے. انہوں نے کہا  کہ ہم مذاکرات کر رہے تھے مگر دوران مذاکرات بھی دہشت گردوں نے ملکی تنصیبات کو نشانہ بنانے کا عمل جاری رکھا اور پھر کراچی ائیرپورٹ پر حملے کے بعد مشاورت سے آپریشن ضرب عضب  کا فیصلہ کیا گیا. تاہم اب ہر قیمت پر دہشت گردی کا خاتمہ کرکے رہیں گے. وزیراعظم نے کہا کہ آپریشن سے متاثرہ افراد کیلئے خصوصی سینٹر قائم کر دیئے ہیں اور ہتھیار ڈالنے والوں کے لیے سرنڈر یونٹس کا  قیام عمل میں لایا گیا ہے.

 وزیراعظم نواز شریف کی طرف سے پوری قوم کو فوج کے ساتھ کھڑے ہونے کی استدعا اپنی جگہ اہمیت کی حامل ہے. تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ قوم ہمیشہ کی طرح اپنی بہادر فوج کے ساتھ ہے. آج جبکہ  قومی سلامتی خدشات کی زد میں ہے فوج  اور قوم ملکی سالمیت کیلئے ہر قربانی دینے کو تیار ہے. دراصل شمالی وزیرستان میں آپریشن ناگزیر ہو چکا تھا. حکومت کو آپریشن ضرب  عضب   میں ملک کی ان سیاسی جماعتوں کی حمایت بھی حاصل ہے جو حکومت سے اختلاف رکھتی ہیں اور ان سیاسی جماعتوں میں  تحریک انصاف، ایم کیو ایم اور دیگر سیاسی  جماعتیں شامل ہیں. ملک کے سیاسی و مذہبی حلقوں کے ساتھ چیف جسٹس آف پاکستان کا یہ کہنا بھی قابل غور ہے کہ غیر ریاستی عناصر کا  سفاکانہ طرز عمل اسلام کے تشخص کو مجروح کرنے کا موجب بن رہا ہے. دوسری طرف آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے کہا ہے کہ آپریشن ضرب  عضب    کا مقصد شمالی وزیرستان میں موجود تمام دہشت گردوں کا صفایا   کرنا ہے. ہمارا ہدف صرف دہشت گرد ہیں اور ہمیں دہشت گردی کی لعنت سے نجات حاصل کرنا ہے. فورسز کی کاروائیاں جاری ہیں اور آپریشن دہشت گردوں کے خاتمے تک جاری رہے گا.

 انشاءاللہ جلد شمالی وزیرستان میں حکومتی رٹ قائم کر دیں گے. یہ امر اطمینان بخش ہے کہ حکومت نے ملک میں قیام امن کو یقینی بنانے کیلئے عسکری قیادت کی ہم آہنگی سے بلآخر آپریشن ضرب عضب    جیسے غیر معمولی فیصلے پر عملدرآمد کیا اور قومی اسمبلی نے قبائلی علاقے میں عسکریت پسندوں کے خلاف آپریشن کی قراداد کثرت رائے سے منظور کی. پی پی، ایم کیو ایم، تحریک انصاف اور قومی  وطن پارٹی نے قراداد کی حمایت میں باقاعدہ دستخط کیے. شمالی وزیرستان میں جاری اس آپریشن کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ ملک بھر میں دہشت گردی کے احکامات شمالی وزیرستان سے ہی جاتے رہے ہیں اور ازبک سمیت متعدد غیر ملکی دہشت گردوں کی محفوظ پناہ گاہیں بھی اس علاقے میں بتائی جاتی ہیں.

یہ اقتضائے وقت تھا کہ حکومت دہشت گردوں کی طرف سے جنگ کو پھیلانے کی دھمکیوں کو سامنے رکھتے ہوئے کوئی حتمی فیصلہ کرتی تاکہ دہشت گردی کی روک تھام ہو سکے. حکومت کی طرف سے ملک کے تمام بڑے شہروں میں فوج کی تعیناتی کا بھی فیصلہ کیا گیا ہے اور حساس  تنصیبات پر سیکورٹی سخت کر دی گئی ہے. حساس مقامات  کے گرد  تین حفاظتی حصار بھی قائم کر دیئے گئے ہیں. پہلے حصار میں پولیس دوسرے میں ایف سی  رینجرز اور تیسرے میں فوج کی تعیناتی کی گئی ہے. ضرورت اس امر کی ہے کہ پوری قوم اور تمام تر قومی ادارے آپریشن ضرب عضب    کی کامیابی کیلئے متحد ہوں تاکہ دہشت گردی  کے اس طوفان پر قابو پایا جا سکے جس نے ہمیں نہ صرف ناقابل تلافی   جانی و مالی نقصان پہنچایا بلکہ ہماری معیشت کی چولیں بھی ہلا دی ہیں. خدا کرے آپریشن ضرب عضب   ہمارے خوابوں کی تعبیر کا پیش خیمہ ہی ثابت ہو.


جمعرات، 19 جون، 2014

آپریشن " ضرب عضب " قوم کی امنگوں کا ترجمان

شدت پسندی نے معاشرتی زندگی کو خوف کے حصار میں لے رکھا ہے اس سے پوری قوم نفسیاتی دباؤ کا شکار ہے. دہشت گردی کی وارداتوں نے  کاروباری  مراکز اور صنعتی و تجارتی سرگرمیوں کو ایک طرح سے ختم  کرکے  رکھ دیا ہے.





  پاک فوج کی طرف سے شدت پسندوں کے خلاف شمالی وزیرستان میں  " ضرب  عضب  "  آپریشن کامیابی سے جاری ہے. فورسز کی جانب سے میر علی، میران شاہ اور دیگر علاقوں میں طیاروں سے بمباری کرکے شدت پسندوں کے متعدد ٹھکانوں کو تباه کیا گیا اور انہیں گھیرے میں لیکر فرار ہونے کی کوشش ناکام بنائی جا رہی ہیں.  شدت پسندوں کی نقل و حرکت  روکنے کیلئے باقی ایجنسیوں سے سرحد کو مکمل طور پر سیل کر دیا گیا ہے. آپریشن میں جیٹ طیاروں کے علاوہ جنگی ہیلی کاپٹر بھی حصہ لے رہے ہیں. افواج پاکستان کی پوری کوشش ہے کہ پاک افغان سرحد کی مکمل طور پر  نگرانی کی جائے تاکہ یہ لوگ یہاں سے نکل کر افغانستان داخل نہ ہو سکیں. آئی ایس  پی آر کے مطابق ابتک ہلاک ہونے والے شدت پسندوں کی بڑی تعداد  ازبک دہشتگردوں کی بتائی جاتی ہے جو بیرونی اشاروں  پر پاکستان کو میدان جنگ بنانے کی سازشوں میں ملوث ہیں.آپریشن کے دوران ابتک دو سو سے زائد دہشت گرد  ہلاک جبکہ  پاک فوج کے متعدد جوان بھی شہید ہوئے ہیں.قبائلی علاقوں سے متاثرہ خاندانوں کی بڑی تعداد محفوظ علاقوں میں نقل مکانی کر رہی ہے. بنوں میں پھچلے چار دن سے کرفیو نافذ ہے جسکی وجہ سے ہزراروں کی تعداد میں متاثرہ خاندانوں کو وہاں سے نکلنے میں سخت مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے.

شمالی وزیرستان میں حالات کافی دیر سے  خراب تھے اور اس بات کی پختہ اطلاعات تھیں کہ ملک بھر کے مختلف شہروں و علاقوں میں والی دہشتگردی ، بم  دھماکوں اور خود کش حملوں میں  ملوث دہشت گرد انہی علاقوں میں پناہ  لیئے ہوئے ہیں. بھارت و امریکہ کی خفیہ اایجنسیوں نے یہاں وسیع نیٹ ورک رکھا ہے اور افواج پاکستان و سیکیورٹی اداروں پر حملے کرنے والوں کو ہر قسم   کے وسائل، جدید اسلحہ ، حساس مقامات کے نقشے اور دیگر معلومات فراہم کی جا رہی ہیں. شمالی وزیرستان میں موجود دہشت گردوں کی جانب سے افواج پاکستان کو بم دھماکوں اور خودکش حملوں کے نتیجہ میں   بے پناہ نقصانات اٹھانا پڑے. قومی  املاک کو بار بار نشانہ بنایا جاتا رہا. ہزاروں کی تعداد  میں افواج پاکستان اور عام شہری جاں بحق ہوئے جس پر اگرچہ پاکستان کے مختلف طبقات کی طرف سے آپریشن کے مطالبات بڑھتے جا رہے تھے  مگر پاکستانی فوج اور حکومت کی جانب سے اس آپریشن سے گریز اور مذاکرات سے مسائل حل کرنے کی خواہشات کا اظہار کیا جاتا رہا. حکومت پاکستان کی جانب سے ایک اعلی سطحی مذاکراتی ٹیم بھی تشکیل دی گئی اور طالبان سے مذاکرات کئے جاتے رہے کہ کسی طرح انہیں قومی دھارے میں لایا جائے تاکہ ملک سے دہشت گردی کا خاتمہ ہوا اور پاکستانی امن و سکون سے رہ سکیں مگر یہ مذاکرات کامیاب نہیں ہو سکے. ملک بھر کی مذہبی و سیاسی جماعتوں کی جانب ملک گیر تحریک چلائی گئی اور ملک کے کونے کونے میں جہاں حکومت پاکستان کو اس بات کا احساس دلایا گیا کہ پاکستان میں اس وقت جو مسائل درپیش ہیں وہ ماضی میں کی گئی غلطیوں اور نام نہاد دہشت گردی کے خلاف جنگ میں حصہ لینے کا نتیجہ ہیں وہیں پر اس بات کی طرف زور دیا جاتا رہا کہ حکومت اپنی غلطیوں  کی اصلاح کرتے ہوئے محب وطن قبائلیوں کو اعتماد میں لے اور طالبان سے مذاکرات و مفاہمت کا راستہ  اختیار کیا جائے لیکن جب بھی مذاکرات کامیابی کی طرف بڑھنا شروع ہوئے امریکہ کی طرف سے ڈرون حملے کرکے انہیں  سبوتاژ کیا جاتا رہا. بعدازاں ہم  نے دیکھا کہ بھارت و امریکہ کی  مداخلت اس قدر بڑھ گئی کہ امریکہ کو ڈرون حملے کی بھی خاص ضرورت نہیں رہی اور دہشت  گردوں نے مذاکرات کے بجائے قتل و غارت کا راستہ ہی اختیار کیا اور مذاکرات کو محض خود کو مظبوط کرنے کیلئے ہتھیار  کے طور پر استعمال کرنے کی کوشش کی. 

 کراچی ائیرپورٹ پر جس طرح حملہ کیا گیا، سیکورٹی اداروں اور وہاں کھڑے طیاروں اور دیگر قومی املاک کو نشانہ بنا کر ملک کو اربوں روپے کا نقصان پہنچایا گیا اسکے بعد ملک بھر کی مذہبی ، سیاسی و سماجی تنظیموں اور قوم کے ہر طبقہ کا مطالبہ یہی ہے کہ شمالی وزیرستان میں بھر پور آپریشن کرکے دہشت گردی کا مکمل خاتمہ کیا جائے. اس وقت جب آپریشن شروع ہو چکا ہے تو اس بات کا ضرور خیال رکھا جانا چاہئے کہ قبائلی عوام  نے  ہمیشہ وطن عزیز کی سلامتی و استحکام کیلئے قربانیاں پیش کیں اور دفاع پاکستان کی جدوجہد میں  میں نہ صرف حصہ لیا بلکہ ہر اول دستہ کا کردار ادا کیا ہے. اس لئےآپریشن کے دوران محب وطن قبائلی عوام جن کا دہشت گردوں سے کوئی لینا دینا نہیں ہے انکے جان و مال کو کوئی نقصان نہیں پہنچنا چاہئے


منگل، 17 جون، 2014

ضرب عضب پاکستان کے وجود کی جنگ

ضرورت اس امر کی ہے کہ ملک کے آئین کی بالادستی کو تسلیم کرتے ہوئے دہشت گردی سے الگ ہونے کا اعلان کریں. غیر ملکی دہشت گردوں کو ملک سے صاف  کرنے کیلئے افواج پاکستان کا ساتھ دیں اور اس امر پر پوری توجہ  مبذول کریں کہ پاکستانی فوج انہیں مکمل اور بھر پور شکست دینے کی صلاحیت  رکھتی ہے. حکومت نے مجبورا ہی سہی اس آخری آپشن کو اختیار کیا ہے تو اب اسے دہشت گردی کے ناسور کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے تک یہ عمل جاری رکھنا ہو گا.



 وہ کونسا نظریہ ہے جو دہشت گردی اور ملک کے خلاف تخریب کاری کا سبق دیتا ہے. اپنے ملک کی سر زمین کو دشمن کی سرزمین قرار دیتا ہے. ریاست کے  خلاف انقلاب کی جنگ ملک کے خلاف نہیں ہوتی اور ملک کے خلاف جنگ عوام کیلئے نہیں ہوتی. ضیاالحق کی آمریت نے پوری دنیا کے جرائم پیشہ، فرقہ پرست، دہشت گرد اور تخریب کار اس ملک کے اس حصّے میں اکھٹے کیے جس کی سرحد ابھی تک متنازعہ ہے.  افغانستان نے ڈیورنڈ لائن کو ابھی تک قبول نہیں کیا. اس کے دعوے ہماری زمین پر ہیں اور ضیاالحق نے اپنے ناپاک اور آئین دشمن مفادات کیلئے اس زمین کو استعمال کیا. ہر قسم کا شر پسند مذہب کے نام پر اکٹھا کیا. ضیاالحق کو تو صرف آئین اور جمہوریت سے دشمنی تھی اور ضیاء کی یہ دشمنی آخرکار پاکستان  دشمن طاقتوں کی قوت بن گئی.

 عمران خان، جماعت اسلامی اور ہمارے تزویراتی اثاثے اس پر نہ صرف خاموش تھے بلکہ درپردہ سوات میں ظلم اور بربریت  کا راج قائم کرنے والوں کی دبی زبان میں حمایت بھی کر رہئے تھے لیکن اس کا علاج صرف ایک ہی تھا اور یوسف رضا گیلانی کی حکومت نے وقت ضائع کیے بغیر یہ فیصلہ کیا کہ سوات کو فوجی آپریشن کے ذریعے ہی آزاد کروایا جا سکتا ہے. طالبان دہشت گردوں نے پاکستانی قوم کی خون اور پسینے کی کمائی سے حاصل ہونے والی دفاعی قوت اور تنصیبات کو نشانہ بنایا. پاکستانی قوم کے شہریوں اور فوجیوں  پر بے دریغ حملے کیے. نہ کسی ہسپتال کو چھوڑا، نہ مدرسے کو اور نہ ہی مسجد کو، بازاروں اور شہروں کولہولہان کر دیا.


عمران خان جیسے تبدیلی کے  کپتانوں نے اس خونریزی کی حمایت کی  اور بار بار کی. بنوں جیل پر حملہ ہوا، عمران خان کی زیر حکومت صوبے ڈیرہ اسماعیل خان کی جیل توڑی گئی. تحریک انصاف کے وزیر اور اراکین اسمبلی قتل کیے گئے لیکن کپتان دہشت گردوں سے مزاکرات کا واویلا کرتا رہا. ان دہشت گردوں نے انسانی اخلاقیات کی دھجیاں بکھیرتے ہوئے ہمارے فوجی جوانوں کے گلے کاٹے اور انکی ویڈیو بناکر ہمیں پیش کر دی.  جن ماؤں ، بہنوں، بیٹیوں، بیویوں اور بچوں نے اپنے پیاروں کے  گلے کٹتے دیکھے ہوں گے وہ تمام زندگی اس اذیت سے چھٹکارہ حاصل نہیں کر سکتے اور ہمارا کپتان شاہد الله شاہد کے بیانات کی تائید کرتا رہا. اس درندگی کی حمایت کرتا رہا جسے دیکھ کر ہر انسان کی روح زخم خوردہ ہو جاتی ہے لیکن بنی گالہ کا مقیم اپنی ایکٹروں پر پھیلی ہوئی اسٹیٹ میں ان خون آشام واقعات کی صفائی پیش کرنے میں مصروف رہا
 
 ہمارا وزیر داخلہ بھی اس کا ہمنوا تھا. چاروں طرف مذاکرات مذاکرات کی آوازیں آرہی تھیں. اے این پی  متحدہ قومی مومنٹ اور پی پی پی بار بار کہہ رہی تھیں انکا علاج صرف اور صرف آپریشن ہے اور وہ بھی مکمل فتح تک. دہشت گردی کے آخری  ہاتھ کے قلم ہونے تک آپریشن جاری رہے . پاکباز کالم نگار آپریشن کے حامیوں کو ملک اور قوم کا دشمن قرار دے رہے تھے. مسلم لیگ (ن) کی حکومت کیلئے یہ کڑا وقت تھا. ایک طرف دہشت گردی بڑھ رہی تھی، لوڈشیڈانگ نے عوام کی زندگی دو بھر کر دی تھی اور کچھ بھی ہاتھ میں نہ تھا. صرف مذاکرات سے امیدیں وابستہ تھیں اور پھر کراچی ائیرپورٹ کا واقعہ ہوا، جس میں طالبان کے غیر ملکی ساتھیوں نے حصہ لیا  تاکہ پاکستان پوری دنیا سے کٹ جائے. غیر  ملکی پروازیں پاکستان آنا بند ہو جایئں. یہ پاکستان کی معیشت پر ایک کاری وار تھا. آخر کار مصلحت پر حقائق غالب آگئے. پاکستان کی قومی  سیاسی قیادت نے صحیح فیصلہ کیا کہ اب  دہشت گردوں سے اسی زبان میں گفتگو کی جائے جو زبان وہ سمجھتے ہیں اور آپریشن کا فیصلہ کر لیا گیا. اگرچہ یہ جنگ چند روز کی نہیں اسکے باوجود منزل کی طرف اٹھا ہوا صحیح قدم ہی انسان کو منزل کے قریب کرتا ہے. پوری قوم نے اس آپریشن کی حمایت کردی ہے اور مجھے یقین ہے کہ قوم اس جنگ میں جو پاکستان کے وجود اور مستقبل کی جنگ ہے فتح یاب ہو گی اور ہم ایک جمہوری معاشرے کے فیوض سے بہرہ ور ہونگے.


پیر، 16 جون، 2014

آپریشن ضرب عضب اور قومی یکجہتی






 یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ ہم لوگ تاریخ کے ایک بہت  نازک مرحلے سے گزر  رہے ہیں. ان حالات میں ضرورت اس امر کی ہے کہ اجتمائی شعور اور جذبہ حب الوطنی کو اجاگر کیا جائے تاکہ پوری قوم سیسہ پلائی ہوئی دیوار بنکر اندرونی اور بیرونی دشمنوں کے مذموم عزائم کی بیخ کنی کیلئے اپنی توانیاں صرف کرنے کیلئے تیار ہو. تاریخ  شاہد ہے کہ ایسے نامساعد حالات میں میڈیا ہی وہ اہم ترین ذریعہ ہے جس کے توسط سے پوری قوم کو ایک پلیٹ فارم  پر یکجا کیا جا سکتا ہے. اہل قلم ہی وہ طبقہ ہے جو ذہنوں کی آبیاری اور شعور کی بیداری میں کلیدی کردار ادا کر سکتا ہے. لیکن یہ بھی انتہائی ضروری ہے کہ   میڈیا میں تحریریں، تبصرے، تجزئیے تعصب سے پاک ہوں، کسی بھی واقعہ پر کیا جانے والا یکطرفہ تجزیہ قلم کار کی محض ذاتی سوچ کی عکاسی کرتا ہے.پاکستان پر  مسلط  طالبان کی  دہشت گردی ایک ایسا عفریت ہے جس نے پاکستان کو ہر لحاظ سے ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے. ہزاروں پاکستانی اس دہشت گردوں کی دہشت گردی کی پھینٹ چڑ چکے ہیں. افواج  پاکستان کے  مایہ ناز افسران،   شہید ہو چکے ہیں، کبھی ہم نے یہ سوچا کہ دہشت گردی کی وجہ سے ہمارا کتنا معاشی نقصان ہو چکا ہے، بیرونی سرمایاکاری نہ ہونے کے برابر رہ چکی ہے، طالبان  کی دہشت گردی کی وجہ سے کتنے بچے یتیم ، کتنوں سہاگنوں کے سہاگ اجاڑ چکے ہیں، کتنی ماؤں کے لخت جگر لقمہ اجل بن گئے. اب ضرورت اس امر کی ہے کہ پاکستان کو طالبان دہشت گردوں سے پاک و صاف کرنے کیلئے تمام بڑے ادارےبشمول میڈیا  پاک فوج کے شانہ بشانہ  اس  جنگ کو لڑیں. کیونکہ پاکستان کی سلامتی  میں ہم سب کی بقاء ہے اور ہم سب کا ہونا اس ارض پاک کی سلامتی سے وابستہ ہے.  جماعت اسلامی  کو اب یہ سمجھ لینا چاہئے کہ یہ وقت قیاس آرئیوں اور الزام تراشیوں کا نہیں بلکہ اجتمائی سوچ اور ملی جذبے کو ترغیب دینے کا ہے اور اس کیلئے ہم سب کو متحد ہوکر اپنی اپنی بساط کے مطابق اس مشن میں اپنا کردار ادا کرنا ہے . بقول احمد ندیم قاسمی...


 وطن کی مٹی مجھے ایڑیاں رگڑنے دے
مجھے یقیں ہے کہ چشمہ یہیں سے نکلے گا



ضرب عضب طالبان کے سروں پر غضب برسانے لگا

افواج  پاکستان نے طالبان اور غیر  ملکی دہشت گردوں کے خلاف فیصلہ کون آپریشن " ضرب عضب ' کا آغاز کر دیا ہے . یہ ساری صورتحال پوری قوم کیلئے  بھی ایک بڑا امتحان ہے. اس امتحان میں وہی قومیں کامیاب ہوتی ہیں جو اپنے دفاعی اداروں کی پشت پر پورے اخلاص کے ساتھ کھڑی ہوں



 پاک فوج نے حکومت کی ہدایات پر شمالی وزیرستان میں غیر ملکی اور  مقامی دہشت گردوں کے خلاف جامع آپریشن شروع کر دیا .آپریشن کو " ضرب   عضب   " کا نام دیا گیا ہے.

 شمالی وزیرستان میں  ہفتہ کی شب بڑی فضائی کاروائی میں 150 ازبک دہشت گرد مارے گئے جس میں کراچی ائیرپورٹ کا ماسٹر مائنڈ  ابو عبدالرحمان المانی بھی شامل تھا، اس فضائی کاروائی میں بڑی تعداد میں غیر ملکی دہشت گردوں کی ہلاکت سے یہ حقیقت طشت از بام ہو گئی ہے کہ ہمارے قبائلی علاقوں میں غیر ملکی دہشت گرد موجود ہیں . ازبکستان سمیت دنیا بھر سے آنے والے یہ  دہشت گرد ہماری  داخلی سلامتی کیلئے مستقل خطرہ ہیں. ایسی صورتحال میں ناگزیر ہو چکا ہے کہ ملک کی سلامتی اور اندرونی استحکام کیلئے دہشت گرد تنظیموں خاص طور پر ملک کے قبائلی علاقوں میں مقیم غیر ملکی دہشت گردوں کے خلاف ریاستی طاقت کا استعمال کیا جائے. یہی وجہ ہے کہ حکومت نے افواج پاکستان کو شمالی وزیرستان کو ملکی اور غیر ملکی دہشت گردوں  سے صاف کرنے کا حکم دے دیا  ہے.

یہ بات کسی سے پوشیدہ نہیں کہ وطن عزیز کو اندرونی اور بیرونی سطح پر دہشت گردی اور شدت پسندی نے ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے. گزشتہ بارہ برس سے خودکش حملوں، بم دھماکوں اور بارود سے بھری گاڑیوں سمیت ملک بھر میں دہشت گردی کا جو بازار گرم ہوا، ایک اندازے کے مطابق اس سے ملکی معیشت کو 100 ارب ڈالرز سے زیادہ نقصان ہو چکا ہے. دہشت گردی اور انتہا پسندی  نے ہمارے معاشرے کو تفریق اور تقسیم کے نہ ختم ہونے والے رحجان میں مبتلا کیا ہوا ہے. سیکورٹی اداروں کے اہلکاروں سمیت ہزاروں بے گناہ پاکستانی دہشت گردی کی اس  آگ کا شکار ہو گئے.

ہمارے کھیل کے میدان، سیاحتی مقامات ویران ہوکر رہ گئے جبکہ دنیا بھر میں پاکستان کی شناخت دہشت گردوں کی پناہ گاہ کے طور پر ہونے لگی. افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ میں ہر اول دستے کا کردار  ادا کرنے اور دنیا کے امن کی خاطر قربانیاں دینے کا  صلہ یہ مل رہا ہے کہ ہم خود بدترین دہشت گردی کا شکار ہو چکے ہیں. پاکستان کے قبائلی علاقے دنیا بھر سے آئے دہشت گردوں کی آما جگاہ بنے ہوئے ہیں. غیر ملکی دہشت گردوں کی پاکستان آمد کا سبب بھی خطے میں امریکہ سمیت عالمی طاقتوں کے مفادات کی اندھی  تکمیل ہے. ایک وقت تک امریکہ اور اسکے اتحادی ان غیر ملکی دہشت گردوں کی پشت پناہی اور ہمارے قبائلی علاقوں میں قیام کیلئے انکی سرپرستی کرتے رہے.  جب انکے مفادات پورے ہو گئے تو ان عالمی قوتوں نے ڈرون حملوں اور دیگر ہتھکنڈوں کے ذریعے ہماری خود مختاری کیلئے مسائل پیدا کئے. اسی جارحیت کی وجہ سے جب قبائلی علاقوں میں بے گناہ شہری جاں بحق ہوئے تو اس کا  خمیازہ بھی پاکستان کو بھگتنا پڑا.  

یہ بات طے شدہ ہے اور اس پر کوئی دوسری رائے نہیں کہ دہشت گردوں، شدت پسندوں اور شرپسندی پر اترے عناصر کا علاج ریاستی طاقت کے ذریعے انہیں جڑ سے اکھاڑنے کی پالیسی ہے، کوئی محب وطن ادارہ، سیاسی و مذہبی جماعت اور تنظیم داخلی استحکام اور قومی سلامتی پر کسی سمجھوتے کو قبول نہیں کرے گی.