ملک میں گزشتہ بارہ تیرا سال کے عرصے میں دہشت گردی کی بھینٹ چڑھنے والے پاکستانی فورسز کے جوانوں اور عام شہریوں کی تعداد پچاس ہزار سے زائد ہو چکی ہے اور ملی نقصان ایک کھرب سے بڑھ چکا ہے. ایسے سنگین حالات کے باوجود اگر اب بھی کوئی فرد یا جماعت دہشت گردی کے خاتمے کیلئے مذاکرات کی راہ دکھاتی اور مذاکرات پر ہی اصرار کرتی ہے تو اسے ملک کا بہی خواہ کس طرح قرار دیا جا سکتا ہے؟
کئی عشروں سے جاری سفاکانہ دہشت گردی نے ملک میں بہت خون بہا دیا ہے. امن و امان بدامنی کے گرداب میں ڈوب رہا ہے قومی معیشت سرمایہ کاری کا عمل رکنے سے پستی میں ہچکولے کھا رہی ہے. دہشت گردی کا عفریت ہزاروں پاکستانیوں کو نگل چکا ہے. اربوں کے مالی نقصان کا ملک و قوم کو سامنا ہے جبکہ ان تمام نقصانات و فتنہ سازیوں کے باوجود طالبان آج بھی دھمکیاں دے رہئے ہیں کہ ہمارے خلاف جاری آپریشن اسلام آباد و لاہور میں حکومتی ایوانوں کو جلا دے گا جبکہ نواز شریف کا یہ کہنا بھی قابل غور ہے کہ دہشت گردی اور مذاکرات ساتھ ساتھ نہیں چل سکتے. وقت آگیا ہے کہ دہشت گردوں کے آخری ٹھکانے تک شدت پسندوں کے خلاف جنگ جاری رکھی جائے تاکہ حالیہ آپریشن ہمارے خوابوں کی تعبیر کا پیش خیمہ ثابت ہو سکے.
یہ حقائق کسی سے پوشیدہ نہیں کہ گزشتہ بارہ تیرہ سال کے عرصے میں دہشت گردی بھینٹ چڑھنے والے پاکستانی فورسز کے جوانوں اور عام شہریوں کی تعداد پچاس ہزار سے زائد ہو چکی ہے اور مالی نقصان ایک کھرب سے بڑھ چکا ہے. ایسے سنگین حالات کے باوجود اگر اب بھی کوئی فرد یا جماعت دہشت گردی کے خاتمے کیلئے مذاکرات کی راہ دکھاتی اور مذاکرات پر ہی اصرار کرتی ہے تو اسے ملک کا بہی خواہ کس طرح قرار دیا جا سکتا ہے؟ اس بات کو بھی نہیں جھٹلایا جا سکتا کہ وزیراعظم پاکستان نواز شریف جو بغیر خون خرابے کے ملک میں قیام امن کیلئے حکومت طالبان مذاکرات کے خود بہت بڑے حامی تھے، یہ کہنے پر مجبور ہو چکے ہیں کہ مذاکرات کی بھرپور کوششیں کی گئیں مگر دہشت گرد ملک میں قیام امن کیلئے کسی نرمی یا رعایت کو خاطر میں نہ لائے.وقت آگیا کہ اب دہشت گردوں کے ساتھ سختی سے نمٹا جائے اور ملک و قوم کے مستقبل کو پرامن بنانے کیلئے ہر ممکن کیے جائیں.
گزشتہ روز وزیراعظم نواز شریف نے قومی اسمبلی اور سینٹ میں خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ آپریشن ضرب عضب حتمی مقاصد کے حصول تک جاری رہے گا. پوری قوم کو اپنی مسلح افواج کا ساتھ دینا ہو گا. ہم کسی قیمت پر ملک کو دہشت گردوں کی پناہ گاہ نہیں بننے دیں گے. انہوں نے کہا کہ ہم مذاکرات کر رہے تھے مگر دوران مذاکرات بھی دہشت گردوں نے ملکی تنصیبات کو نشانہ بنانے کا عمل جاری رکھا اور پھر کراچی ائیرپورٹ پر حملے کے بعد مشاورت سے آپریشن ضرب عضب کا فیصلہ کیا گیا. تاہم اب ہر قیمت پر دہشت گردی کا خاتمہ کرکے رہیں گے. وزیراعظم نے کہا کہ آپریشن سے متاثرہ افراد کیلئے خصوصی سینٹر قائم کر دیئے ہیں اور ہتھیار ڈالنے والوں کے لیے سرنڈر یونٹس کا قیام عمل میں لایا گیا ہے.
وزیراعظم نواز شریف کی طرف سے پوری قوم کو فوج کے ساتھ کھڑے ہونے کی استدعا اپنی جگہ اہمیت کی حامل ہے. تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ قوم ہمیشہ کی طرح اپنی بہادر فوج کے ساتھ ہے. آج جبکہ قومی سلامتی خدشات کی زد میں ہے فوج اور قوم ملکی سالمیت کیلئے ہر قربانی دینے کو تیار ہے. دراصل شمالی وزیرستان میں آپریشن ناگزیر ہو چکا تھا. حکومت کو آپریشن ضرب عضب میں ملک کی ان سیاسی جماعتوں کی حمایت بھی حاصل ہے جو حکومت سے اختلاف رکھتی ہیں اور ان سیاسی جماعتوں میں تحریک انصاف، ایم کیو ایم اور دیگر سیاسی جماعتیں شامل ہیں. ملک کے سیاسی و مذہبی حلقوں کے ساتھ چیف جسٹس آف پاکستان کا یہ کہنا بھی قابل غور ہے کہ غیر ریاستی عناصر کا سفاکانہ طرز عمل اسلام کے تشخص کو مجروح کرنے کا موجب بن رہا ہے. دوسری طرف آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے کہا ہے کہ آپریشن ضرب عضب کا مقصد شمالی وزیرستان میں موجود تمام دہشت گردوں کا صفایا کرنا ہے. ہمارا ہدف صرف دہشت گرد ہیں اور ہمیں دہشت گردی کی لعنت سے نجات حاصل کرنا ہے. فورسز کی کاروائیاں جاری ہیں اور آپریشن دہشت گردوں کے خاتمے تک جاری رہے گا.
انشاءاللہ جلد شمالی وزیرستان میں حکومتی رٹ قائم کر دیں گے. یہ امر اطمینان بخش ہے کہ حکومت نے ملک میں قیام امن کو یقینی بنانے کیلئے عسکری قیادت کی ہم آہنگی سے بلآخر آپریشن ضرب عضب جیسے غیر معمولی فیصلے پر عملدرآمد کیا اور قومی اسمبلی نے قبائلی علاقے میں عسکریت پسندوں کے خلاف آپریشن کی قراداد کثرت رائے سے منظور کی. پی پی، ایم کیو ایم، تحریک انصاف اور قومی وطن پارٹی نے قراداد کی حمایت میں باقاعدہ دستخط کیے. شمالی وزیرستان میں جاری اس آپریشن کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ ملک بھر میں دہشت گردی کے احکامات شمالی وزیرستان سے ہی جاتے رہے ہیں اور ازبک سمیت متعدد غیر ملکی دہشت گردوں کی محفوظ پناہ گاہیں بھی اس علاقے میں بتائی جاتی ہیں.
یہ اقتضائے وقت تھا کہ حکومت دہشت گردوں کی طرف سے جنگ کو پھیلانے کی دھمکیوں کو سامنے رکھتے ہوئے کوئی حتمی فیصلہ کرتی تاکہ دہشت گردی کی روک تھام ہو سکے. حکومت کی طرف سے ملک کے تمام بڑے شہروں میں فوج کی تعیناتی کا بھی فیصلہ کیا گیا ہے اور حساس تنصیبات پر سیکورٹی سخت کر دی گئی ہے. حساس مقامات کے گرد تین حفاظتی حصار بھی قائم کر دیئے گئے ہیں. پہلے حصار میں پولیس دوسرے میں ایف سی رینجرز اور تیسرے میں فوج کی تعیناتی کی گئی ہے. ضرورت اس امر کی ہے کہ پوری قوم اور تمام تر قومی ادارے آپریشن ضرب عضب کی کامیابی کیلئے متحد ہوں تاکہ دہشت گردی کے اس طوفان پر قابو پایا جا سکے جس نے ہمیں نہ صرف ناقابل تلافی جانی و مالی نقصان پہنچایا بلکہ ہماری معیشت کی چولیں بھی ہلا دی ہیں. خدا کرے آپریشن ضرب عضب ہمارے خوابوں کی تعبیر کا پیش خیمہ ہی ثابت ہو.