Video Widget

« »

ہفتہ، 19 جون، 2010

امریکی میڈیا کو کھلا جواب!

شیری مزاری
جس طرح امریکی حکومت کی جانب سے ہمارے رہنمائوں کیلئے جاری کئے جانیوالے فرمان کو قومی تشویش کے ایشو کے قابل نہیں سمجھا جاتا اس طرح امریکی میڈیا بھی ہرممکن سیاہ ترین انداز سے پاکستان کو نشانہ بنا رہا ہے۔ ایسا کرتے ہوئے زمینی حقائق کابھی خیال نہیں رکھا جاتا اور ان چند ہم خیال مقامی افراد کا حوالہ بھی نہیں دیا جاتا جس کے امریکی اسٹیبلشمنٹ سے اپنے روابط ہیں۔
امریکہ کے میڈیا میں جو سٹوریز شائع کی جاتی ہیں ان میں تعصب اور نیو امپیریل لہجہ موجود ہوتا ہے گذشتہ ہفتے مجھے اسلام آباد میں مقیم دی واشنگٹن پوسٹ کی نامہ نگار کیرن برولیارڈ کی دلچسپ کال اور ای میل موصول ہوئی۔ نامہ نگار نے مجھے متعدد سوالات ارسال کئے تھے جن کے وہ مجھ سے ایڈیٹر دی نیشن کی حیثیت سے جواب چاہتی تھی۔ سوالات پڑھنے کے بعد میرے ان خیالات کی تصدیق ہو گئی کہ امریکی حکومت اور کم از کم پاکستان میں موجود امریکی میڈیا کے نمائندوں کے مابین خصوصی تعلق موجود ہے اور اس کا اظہار سوالات کی تشکیل میں اپنائے گئے شاہانہ لہجے سے بھی ہوتا تھا لہٰذا میں نے فیصلہ کیا کہ قارئین کو یہ جاننے کا موقع دیا جائے کہ امریکی میڈیا کے نمائندوں کا پاکستانی میڈیا کے ساتھ برتائو کیسا ہوتا ہے کیونکہ اس سے مخصوص متکبرانہ ذہنیت کی عکاسی ہوتی ہے۔
اس بات سے آغاز کرتے ہوئے جیسا کہ ہم پاکستان میں بہت اچھی طرح آگاہ ہیں کہ واشنگٹن پوسٹ پاکستان کے بارے میں بمشکل ہی ’’متوازن‘‘ مضامین شائع کر رہا ہے بلکہ حقیقت میں بعض تو پاکستانی ریاست کو بدنام کرنے کیلئے جنون کی حد تک پہنچے ہوئے ہوتے ہیں۔ سمجھا جاتا تھا کہ ایسا لاعلمی یا زمینی حقائق سے عدم آگاہی کے باعث کیا جاتا ہے لیکن اب یہ سمجھا جا سکتا ہے کہ درحقیقت اسلام آباد میں واشنگٹن پوسٹ کی نامہ نگار کا واضح طور پر کوئی دوسرا ایجنڈا ہے۔تاہم سب سے پہلے مجھے یہ تسلیم کرنا چاہئے کہ ہم سب انسانی غلطی سے اثر پذیر ہو سکتے ہیں اور جہاں تک اس اخبار میں ممکن ہوتا ہے ہم ایک بار ثابت ہو جانیوالی اپنی غلطیوں کو ضرور تسلیم اور قبول کرتے ہیں ہم مغربی میڈیا کے برعکس غلطی کے ارتکاب سے مبرا ہونے کا دعویٰ نہیں کرتے۔ اب سوالات پوچھنے کیلئے شاہی انداز اختیار کیا گیا ہے یہ سوالات امریکی سفارتخانے کی پوزیشن کی سچائی کا احاطہ کئے ہوئے ہیں اور ان میں بڑے موثر طریقے سے ہمیں یہ بتایا گیا ہے کہ ہم نے اپنا کام کیسے کرنا ہے۔
بدقسمتی یہ کہ واشنگٹن پوسٹ نے خود اس بے مانگے مشورے پر عمل نہیں کیا جو ہمیں دیاگیا ہے مثال کے طور پر مجھے بتایا گیا کہ سفارتخانہ پریس ریلیز ریکارڈ کی درستگی کیلئے جاری کرتا ہے جو بقول مس برولیارڈ کے دی نیشن میں ان کا اکثر جواب آرٹیکلز کی شکل میں دیا جاتا ہے اور وہ جاننا چاہتی ہے کہ ان سے کیا سلوک کیا جاتا ہے۔ وہ جس بات سے آگاہ نہیں وہ یہ ہے کہ ان میں بیشتر امریکی سفارتخانے کی ویب سائٹ پر پوسٹ کئے جاتے ہیں جنہیں دیکھنا ہمارا فرض نہیں اور جب یہ پریس ریلیز ہمیں بھجوائے جاتے ہیں تو یہ باضابطہ طور پر ایڈیٹر کو بھجوانے کے بجائے افراد کو بھیجے جاتے ہیں۔ اسکے باوجود بلاشبہ اگر ہم محسوس کرتے ہیں کہ ان میں معمولی سی بھی سچائی یا اسکے برعکس ہے تو ہم انہیں فراخ دلی کے ساتھ شائع کرتے ہیں لیکن اگر یہ حقائق کے بغیر ثابت کرنے کیلئے محض تردید پر مشتمل ہوں تو پھر ہم یہ بات بھی بتائیں گے شائد یہ وجہ ہے کہ وہ ہمیں شاذونادر ہی براہ راست پریس ریلیز بھیجتے ہیں اور واشنگٹن پوسٹ کی نامہ نگار کو اپنے سفارتخانے کی جانب سے بتائی گئی بات سے پہلے اس پوائنٹ کو چیک کرنا چاہئے تھا۔
مجھے اس کا سوال ملا کہ کیا تم سفارتخانے کی وضاحتیں یا فالو اپ چھاپتے ہو انتہائی دلچسپ بات یہ ہے کہ اس سے پتہ چلتا ہے کہ کوئی مسلسل امریکی سفارتخانے کی دلجوئی کا خواہش مند ہے پھر وہ یہ انکشاف بھی کرتی ہے کہ سفارتخانے کے حکام پاکستانی میڈیا کے بعض حصوں میں پروفیشنل ازم کی کمی کا حوالہ دیتے ہیں جن کے بارے میں وہ محسوس کرتے ہیں کہ یہ ’’متوازن‘‘ آرٹیکلز فراہم نہیں کرتے یہ سوال جہاں سے بھی آیا بڑا مضحکہ خیز ہے لیکن اس سے دو سوال پیدا ہوتے ہیں پہلا یہ کہ ’’متوازن‘‘ سے امریکیوں کی کیا مراد ہے؟ دوسرا یہ کہ کیا وہ واشنگٹن پوسٹ کو اس بات سے آگاہ کر سکتے ہیں کہ وہ کم از کم کبھی کبھار ہی پاکستان یا پھر فلسطین کے بارے میں کوئی متوازن آرٹیکل شائع کر دیا کرے میں فریڈم فلوٹیلا کا حالیہ واقعہ یاد دلاتی ہوں۔ یہ کوئی اور نہیں بلکہ امریکہ کا بڑا پرنٹ میڈیا ہی تھا جس نے اس پر سوار لوگوں کو ’’عسکریت پسند‘‘ قرار دیا جہاں تک پاکستان کے بارے میں سٹوریز کا تعلق ہے تو ان میں تاریک پہلو ہی دکھایا جاتا ہے چونکہ امریکی میڈیا یہ بھی نہیں جانتا کہ ’’متوازن‘‘ کا مطلب کیا ہے تو پھر میں کوئی وجہ نہیں سمجھتی کہ واشنگٹن پوسٹ کے اس مخصوص سوال کا جواب دوں۔ جس چیز نے حقیقی طور پر یہ واضح کیا ہے کہ واشنگٹن پوسٹ کی نامہ نگار کی امریکی سفارتخانے کے ساتھ ورکنگ ریلیشن شپ ہے یہ سوال تھا کہ دی نیشن میں شائع ہونیوالی اس سٹوری کی امریکی سفارتخانے کی جانب سے جاری کردہ ’’کوریکشن‘‘ کا کس طریقے سے جواب دیا گیا جس کا عنوان ’’تربیت کی آڑ میں مکروہ امریکی ایجنڈا‘‘ امریکی سفارتخانے کے عملے سے پکڑے گئے ہتھیاروں سے متعلق امداد تھا جبکہ اس عملے کے پاس ہتھیاروں کی منتقلی کا کوئی اجازت نامہ بھی نہیں تھا۔
مس برولیارڈ کیمطابق امریکی سفارتخانے کی تصحیح میں بتایا گیا ہے کہ ہتھیار لے جانے کی اجازت دی گئی تھی اس میں یہ سوچ کارفرما ہے کہ ہمارا پریس جھوٹ بول رہا تھا کیونکہ ہماری سٹوری میں پولیس ذرائع کا حوالہ دیا گیا تھا کہ دو اہلکاروں کو کیوں روکا گیا تھا۔ کس قدر غیر مناسب ہے کہ اس نے سفارتخانے کی سٹوری کو اسلام آباد پولیس سے ان کا موقف پوچھے بغیر اس بنیاد پر حقائق کے مطابق چیک نہیں کیا پھر یہ شاہکار سوال کہ یہ کس طرح امریکہ کے ایک مشکوک ایجنڈا کا بالکل واضح عکاس ہے۔
بہت خوب! میرا اندازہ ہے کہ پاکستان میں امریکی ایجنڈا کے بارے میں ہم ہمیشہ مختلف توضیحات رکھیں گے بلکہ اسی طرح جیسے پاکستان کے بارے میں امریکی میڈیا رکھتا ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ ہم سرکاری ذرائع سے چیک کرتے ہیں اور اگر پولیس کسی اطلاع کی تصدیق کر دے تو ہمارے لئے اس میں شک کرنے کی کوئی وجہ نہیں کیونکہ پاکستانی پولیس امریکیوں کیساتھ معاملہ کرنے میں بے حد محتاط ہے اور اگر ہمیں نان پروفیشنل اور پاکستان کے ’’متعصب‘‘ میڈیا کے لوگ قرار دینا کافی نہیں تو حتمی سوال یہ ہے کہ ہم امریکی اہلکاروں کی تصاویر اور شناخت کیوں شائع کرتے ہیں کیونکہ اس طرح ہم انکی زندگیوں کو خطرے میں ڈال دیتے ہیں اس سے پتہ چلتا ہے کہ یہاں اہم مقصد یہ ہے کہ امریکی اہلکاروں کو کسی بھی چیکنگ کے بغیر اپنا کام جاری رکھنے دیا جائے خواہ یہ مشکوک ہی کیوں نہ ہو۔ ایسا نہیں ہو سکتا اور اگر ہم کسی کو کوئی مشکوک کام کرتے ہوئے دیکھیں تو اس کو رپورٹ کرنا ہمارا کام ہے۔ ان کے علاوہ امریکہ اور دیگر غیر ملکی میڈیا کے لوگوں کی قانون شکنی کی لاتعداد سٹوریاں ہیں جو ان علاقوں میں جاری ہیں جہاں جانے کے انکے پاس ویزے نہیں ان میں سے بعض خود کو سکالرز ظاہر کرتے ہیں۔ (میں خود ایچ ای سی کیساتھ اس کا شکار ہوئی ہوں جب انسٹی ٹیوٹ آف سٹرٹیجک سٹڈیز میں ایک امریکی صحافی نے خود کو سکالر ظاہر کیا تھا) لہٰذا کیا پاکستان اور اس کے میڈیا کو ان لوگوں کو قانون سے بالا ہونے کا حق دے دیا جائے؟
مجھ سے یہ بھی پوچھا گیا کہ میں پاکستان میں امریکہ اور اسکی پالیسیوں کی اپنی کوریج کو کیسے دیکھتی ہوں۔ میں سمجھتی ہوں کہ مجھے اس کا جواب دینے کی کوئی ضرورت نہیں کیونکہ ہمارا اخبار اپنے نقطہ نظر کی انتہائی واضح طور پر عکاسی کرتا ہے۔ ہم اس بارے میں واضح طور پوزیشن لینے میں ہرگز خوفزدہ نہیں جن کے بارے میں ہم سمجھتے ہیں کہ یہ قومی مفاد میں ہے اسی طرح ہم بیشتر پاکستانیوں کی طرح متبادل نقطہ نظر سننے اور آئوٹ سائیڈرز کو اکاموڈیٹ کرنے کے کہیں زیادہ متمنی ہوتے ہیں لیکن یہ بات واضح ہے کہ امریکی میڈیا کی جانب سے کبھی بھی اس طرح کی سوچ کا مظاہرہ نہیں کیا گیا لہٰذا میں مس برولیارڈ اور اسکے ساتھیوں سے کہتی ہوں کہ ہمارے بارے میں اندیشوں کا اظہار کرنے سے پہلے اپنے اقدامات اور رپورٹوں پر خوب اچھی طرح نظر ڈالیں اور ہماری قوم کے بارے میں ’’متوازن‘‘ کوریج کے معنی تلاش کریں۔ چارلس کنگسلے کی بچوں کیلئے ایک دلچسپ سٹوری بعنوان ’’دی واٹر بے بیز‘‘ ہے جس میں ایک کردار کہتا ہے ’’وہی کرو جو تمہارے ساتھ کیا جائیگا‘‘ اگر اس کتاب کا مطالعہ امریکی سکولوں میں لازمی قرار دے دیا جائے تو یہ امریکہ کی بڑی مدد کر سکتی ہے۔

http://www.nawaiwaqt.com.pk/pakistan-news-newspaper-daily-urdu-online/Opinions/Adarate-mazameen/19-Jun-2010/12135

کوئی تبصرے نہیں: