Video Widget

« »

جمعہ، 18 جون، 2010

اتحادی پاکستان کو امریکہ اپنا دشمن بنانے میں کیوں مصروف ہے؟

ذرا سوچیے کہ قدامت پسند سفید فام خواہ یہ امریکہ میں ہوں یا برطانیہ میں یہ پاکستان کے ساتھ منفی کھیل کھیلنے میں ہی کیوں مصروف ہیں؟ حالانکہ پاکستان امریکہ کا اتحادی ہے۔ وائٹ ہائوس میں نیوکونز اور صیہونی لابی افغانستان میں امن لانے کی بجائے عالمی جنگ کا ماحول بنانے پر کیوں مصر ہے۔ حالانکہ ایسا ہونا امریکہ کی اپنی تباہی بھی ہے بھارت کو افغانستان میں رکھنے اور عظیم ملک بنانے میں اپنا غیر اخلاقی اور غیر قانونی کردار ادا کرنے میں کیوں مصروف ہے؟ لندن سکول آف اکنامکس کی حالیہ رپورٹ پاکستان کو بلیک میل کرنے کی ایسی طفلانہ کوشش ہے جس کو نظرانداز کرنا نامناسب ہوگا۔ آئی ایس آئی پر الزامات کا مطلب صرف ہیلمند اور قندھار میں کامیابیوں کے لئے شمالی وزیرستان پر پاک فوج سے آپریشن کرانا مقصود ہے یا بھارت کی افغانستان میں مستقل بقاء کا جواز فراہم کرنا مقصود ہے؟ ایک مطلب یہ بھی ہے کہ ''تہذیبی'' جنگ کو حقیقت ثابتہ بنانے میں کچھ امریکہ کچھ برطانوی کچھ صہیونی اور کچھ ہندو اذہان پوری سنجیدگی سے مصروف عمل ہیں؟ خاکوں کی اشاعت سے مسلمانوں میں اشتعال پیدا کرکے تہذیبی جنگ کو ''عملی جنگ'' میں تبدیل کرنا صاف صاف نظر آرہا ہے؟ لندن سکول آف اکنامکس کی افغانستان کے حوالے سے والڈ مین کی تیار کردہ یکطرفہ اور منفی پروپیگنڈہ رپورٹ کا مطلب بھی صرف یہی ہے کہ آئی ایس آئی پر الزامات اتنے لگا دئیے گئے ہیں کہ پاک فوج اور حکومت دونوں ہی ناراض ہو کر امریکی اتحادی کا کردار یا تو تابع مہمل بن کر ادا کریں یا دو ٹوک یہ اتحاد ٹوٹ جائے۔ امریکہ سے پاکستان کا تعاون اگر افغانستان کے حوالے سے ختم ہو جائے گا تو اس سے بھارت کو بہت زیادہ خوشی ہوگی کہ یوں وہ افغانستان میں بیٹھ کر پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کی حکمت عملی کو مستقل جاری رکھ سکے گا جبکہ صہیونی لابی اور نیوکونز سفید فام یوں خوش ہونگے کہ مسلمان عیسائی تہذیبی ''کشمکش'' عملاً ''لڑائی'' میں تبدیل ہو جائے گی۔ اس نئی شورش میں نیو کونز اور صہیونی ایجنڈا ہندو رفاقت میں آسانی سے پایہ تکمیل تک پہنچتا رہے گا۔ ایرانی قیادت سے اختلاف ہوسکتا ہے مگر جس طرح ایران کو ٹارگٹ کیا جا رہا ہے اس سے صرف اسرائیل کا ایجنڈا پایہ تکمیل کو پہنچتا ہے اور افغانستان میں ایرانی مفادات کو کچل کر بھارت کو کردار دینے کا راستہ کھلتا ہے۔ کیا یہ امن کا راستہ ہے یا عالمی جنگ کی طرف پیش رفت؟ لندن سکول آف اکنامکس رپورٹ میں صدر آصف علی زرداری کو ملا برادرز کا ساتھی اور سرپرست بنا دیا گیا ہے۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ سی آئی اے ملا برادرز کو دبوچ لینے کی واضح حکمت عملی رکھتی تھی مگر اس میں خالد خواجہ نامی سرپھر ے شخص نے عدالتی رکاوٹ پیدا کر دی اور یوں سارا معاملہ سی آئی اے کے ہاتھوں میں جانے کی بجائے آئی ایس آئی کے قبضے میں رہ گیا تھا۔ سی آئی اے اپنا یہ زخم اب تک چاٹ رہی ہے اور ردعمل میں آکر صدر زرداری پر بھی الزام لگا دیا گیا ہے کہ وہ ملا برادرز سے ملے تھے اور ان سے بات چیت کی تھی۔ ہم نہایت ادب سے بتاتے ہیں کہ صدر زرداری کا معاملہ صدر حامد کرزئی سے یکسر مختلف ہے۔ صدر کرزئی پر امریکیوں نے صدارتی انتخاب میں فراڈ کا مسلسل الزام لگایا تھا مگر صدر زرداری کا صدارتی انتخاب مکمل جمہوری عمل تھا لہٰذا صدر کرزئی کی طرح صدر زرداری پر طالبان سے تعلق کا الزام بے وزن بات ہے۔ اس کا ایک مطلب یہ بھی ہے کہ آئی ایس آئی کے ساتھ ساتھ ایوان صدر کو بھی بلیک میل کیا جارہا ہے کہ وہ امریکی برطانوی بھارتی ایجنڈے کو مدد فراہم کریں۔ لندن سکول آف اکنامکس رپورٹ کا ایک مقصد یہ بھی ہے کہ پاکستان اکثر یہ موقف پیش کرتا رہا ہے کہ افغانستان میں موجود ہونے کی وجہ سے بھارت بلوچستان اور فاٹا میں سرکشوں اور باغیوں کو شہہ دیتا ہے' تربیت دیتا ہے اسلحہ اور پیسہ دیکر ان سے پاکستان بھر میں دہشت گردی کی کارروائیاں کروا کر کشمیر کا بدلہ لینے میں مصروف ہے۔ والڈ مین کی رپورٹ سے بھارت پر پاکستانی الزامات کے جواب میں پاکستان کو مجرم بنا کر کٹہرے میں لانے کی واضح کوشش ہوئی ہے۔ ملا برادرز سے رابطے اور طالبان سے تعلق کا اچانک الزام جس طرح صدر زرداری پر لگا دیا گیا ہے' ذرا تصور کریں محترمہ بے نظر کی شہادت میں کہاں کہاں سے منصوبہ بندی ہوئی ہوگی اور انہیں ''اتحادی'' سے ''دشمن'' سمجھنے میں کہاں کہاں حکمت عملی تیار ہوئی ہوگی؟ سی آئی اے سارے کام اب خود نہیں کرتی وہ اپنے اکثر کام جن میں مطلوب افراد کا قتل بھی شامل ہے عسکری ٹھیکے داروں سے کراتی ہے بلیک واٹر اور اس جیسے عسکری ٹھیکے دار کیا محترمہ کی شہادت کے حوالے سے قابل غور ہوسکتے ہیں؟ چونکہ تازہ رپورٹ کے مطابق پاک افغان سرحد اطراف کے قبائلی علاقوں میں امریکیوں نے منفرد اور اہم ترین معدنی وسائل تلاش کرلئے ہیں لہٰذا اس علاقے میں مستقل رہنے کا جواز اور راستہ آئی ایس آئی اور صدر زرداری پر الزامات لگانا ہے اور صدر اوبامہ کو مجبور کرنا ہے کہ وہ 2011ء میں افغانستان سے نکل جانے کا فیصلہ تبدیل کر دیں۔ امریکہ کتنا دہرا معیار رکھتا ہے؟ کتنا منافق ہے؟ بھارت کے ساتھ جب سول نیوکلیئر معاہدہ طے ہوا تھا تو اس نے این پی ٹی پر دستخط نہیں کئے تھے اس کے باوجود صدر بش نے امریکی قانون کو نظرانداز کرکے بھارت سے ایٹمی معاہدہ کرلیا تھا۔
اوبامہ انتظامیہ اس سلسلے کو ختم کرنے کی بجائے اسے کامیاب بنانے میں مصروف ہے۔ روس نے بھارت کو نیوکلیئر پاور ری ایکٹرز کافی بڑی تعداد میں فراہم کرنے کے معاہدے کر رکھے ہیں مگر امریکہ کو اس پر اعتراض نہیں جبکہ چین اگر صرف چند پاور ایٹمی ری ایکٹر دینے کا معاہدہ ماضی میں کئے ہوئے ہے تو اس پر امریکہ کو شدید اعترارض ہو رہا ہے۔ کیا امریکہ کا یہ طرز عمل پاکستان کے الجھے ہوئے انرجی مسائل حل کرنے میں مدد فراہم کرتا ہے یا بلیک میلنگ سے دشمنی تک کا راستہ ہموار کرتا ہے نیو کلیئر سپلائزرگروپ کے نیوزی لینڈ میں متوقع اجلاس اسی بات کا آئینہ دار ہوگا۔ افغانستان کی خفیہ ایجنسی کے سابق سربراہ پنج شیری امر اللہ صالح پاکستان اور آئی ایس آئی کو افغانستان کا دشمن نمبر 1بتاتا رہتا ہے۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ بھارت نے افغانستان کی پولیس' سلامتی اداروں کی تشکیل' سرحدی علاقوں میں انفراسٹرکچر اور سڑکوں کی تعمیر کی آڑ میں اپنا اینٹی پاکستان کتنا بڑا نیٹ ورک قائم کیا ہوا ہے۔ دوسرے لفظوں میں اتحادی بنے پاکستان کے ساتھ دلچسپ کھیل کھیلا جارہا ہے تو گویا نومبر کے امریکی انتخابات سے پہلے سفید فام نیو کونز اپنے ایجنڈے کی تکمیل کے لئے سرتوڑ کوششیں کرنے میں مصروف ہیں۔

کوئی تبصرے نہیں: