Video Widget

« »

بدھ، 18 جون، 2014

سانحہ ماڈل ٹاؤن اور پولیس کا دیوالیہ پن

پاکستان کے صوبے پنجاب کے دارلحکومت لاہور کے علاقے ماڈل ٹاؤن میں منہاج القرآن کے سیکرٹریٹ کے قریب پولیس اور پاکستان عوامی تحریک کے کارکنوں کے درمیان میں کم از کم آٹھ افراد ہلاک اور 97 کے قریب زخمی ہو گئے.





 پنجاب پولیس نے منہاج القرآن سیکرٹریٹ پر شاید یہ سوچ کر اس قدر بہیمانہ حملہ کیا کہ وہ بھی شمالی وزیرستان کی کوئی آما جگاہ تھی. نوجوان طالب علموں، خواتین اور باریش بزرگوں کو جس سلوک کا نشانہ بنایا گیا منتقم مزاجی کے زمرے میں ہی آئے گا.


پاکستان اپنی تاریخ کی اہم ترین جنگ لڑ رہا ہے. پوری قوم اس جنگ میں شریک ہے. اس وقت قوم کے اتحاد اور فکری یکجہتی کی ایسی ضرورت ہے جیسی تحریک پاکستان پاکستان کے دوران دیکھنے میں آئی تھی. یہ وقت ہے ذاتی سیاسی اور گروہی اختلافات ختم کرکے ایک قوم بننے اور ایک جذبے کے اظہار کا. ہم دہشت گردی کو ہرگز قبول نہیں کرتے. دہشت گردی سے اپنے ناپاک مقاصد پورے کرنے والوں کے مقابل ہم عزم و ہمت کی چٹان ہیں. پاکستان کے اٹھارہ کروڑ عوام دہشت گردوں کے اس گروہ کو اپنی زندگی، اپنے معاشرے اور اپنی ثقافت سے کھیلنے کی ہرگز اجازت نہیں دیں گے. جنکا اس زمین کے ساتھ کوئی تاریخی اور جذباتی تعلق ہی نہیں ہے. پاکستان کے اٹھارہ کروڑ عوام اس معاشرے کی تشکیل کیلئے بے شمار قربانیاں دے چکے ہیں جو جمہوری اور آئینی روشن خیالی کے جذبوں پر تعمیر کیا جائے گا. فرقہ پرست اور اذیت پسند قوتیں ہمارے معاشرے پر کبھی غالب نہ آئیں گی. یہ فیصلہ ہے پاکستان کے شہریوں کا اور یہ فیصلہ لاگو ہو کر رہے گا. مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے گزشتہ چھ سال آپریشن کی مخالفت کی. وہ سوات میں فوجی آپریشن کے حق میں بھی نہیں تھی لیکن پیپلز پارٹی نے آپریشن کیا اور کامیاب کیا.

گزشتہ ایک سال کے واقعات کے بعد جب پانی اور آگ دونوں سر سے گزر گئے تو مسلم لیگ (ن) کو چاروناچار آپریشن کا فیصلہ کرنا پڑا.  اس وقت پوری قوم آپریشن کے حق میں ہے لیکن ایسی صورتحال میں جب قوم متحد ہو رہی ہے. پنجاب حکومت نے ایک بے معنی جھگڑا شروع کروادیا ہے. عوامی تحریک کے رہنما ڈاکٹر طاہر القادری کے گھر پر دھاوا بول دیا گیا ہے. دھاوا تو دراصل ان رکاوٹوں پر بولا گیا جو آنے جانے والے راہگیروں اور وہاں رہائش پذیر لوگوں کیلئے مشکلات کا  موجب بن رہی تھی.  لیکن حیرت اس بات پر ہے کہ ن لیگ کی قیادت  علامہ صاحب سے واقف نہیں تھی؟ مسئلہ صرف وہاں کے مکینوں کی تکالیف کا ہے مگر پروفیسر صاحب اسے عالم اسلام کیلئے انقلاب  کے راستے میں رکاوٹ قرار دے سکتے ہیں. دہشت گردی کے خلاف آپریشن کا چوتھا دور ہے. ابھی دو روز قبل پاکستان  کے وزیراعظم نے قوم کو اعتماد میں لیا ہے. اس وقت پاکستان کے کسی شہر اور قصبے میں کسی قسم کے مظاہروں اور احتجاج کی ضرورت نہیں تھی. اگر پروفیسر ڈاکٹر طاہر القادری نے یہ راستہ کئی سال سے بند کیا ہوا تھا تو چند ہفتے اور گزر جانے سے کیا فرق پڑتا تھا.

مسلم لیگ (ن) کی قیادت پر عموما یہ الزام عائد کیا جاتا ہے کہ یہ دشمنی کو پروان چڑھانے اور مخالفوں سے بدلا لینے میں یکتا ہے لیکن شیخ   الاسلام کے راستے سے رکاوٹیں ہٹا کر اچھا کام نہیں کیا. انہوں نے ان کالم نگاروں کی بات مان لی جنہوں نے تمام زندگی نہ کبھی سیاست کی اور نہ ہی کسی سیاسی جماعت سے فکری تربیت حاصل کی، محض اقتدار کیلئے قصیدہ خوانی ہی کو  سیاسی   تدبر سمجھا. ڈاکٹر صاحب کو آنے دیجئے حکومت کو فرق نہیں پڑے گا. البتہ اس وقت قوم کی توجہ کسی دوسری جانب  مبذول کروانا ضرب  عضب  کی اہمیت کو کم کرنے مترادف ضرور ہو گا. 
 صدیق اظہر

پڑھنے کا شکریہ اپنی قیمتی آراہ سے ضرور نوازیں

کوئی تبصرے نہیں: