Video Widget

« »

جمعہ، 30 مئی، 2014

جیو ٹی وی کے خلاف کیا کارروائی کی جائے


 پاک فوج کے معاملہ میں ہمارے  عوام بہت حساس ہیں، وہ یہ برداشت نہیں کر سکتے کہ پاک فوج کا وقار گرایا جائے اور جان بوجھ کر اسے بدنام کرنے کا محاذ کھولا جائے ، کسی بھی ملک کے  محب وطن عوام اپنی فوج کے خلاف کوئی بات سننے کو تیار نہیں ہو سکتے



 بلوچستان کے وزیراعلیٰ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے کہا ہے کہ کسی اخبار یا میڈیا کے ادارے کو بند نہیں  دیں گے... وہ اس حقیقت سے بے خبر نہیں ہو سکتے کہ  پاک فوج کے خلاف زہر افشانی پر جیو ٹی وی اور جنگ اخبار کے خلاف بلوچستان سمیت چاروں صوبوں میں بڑے مظاہرے ہوئے ہیں، چاروں صوبوں میں مقدمات بھی قائم کئے گئے اور  وزیر دفاع نے   الیکٹرونک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی کو جیو کے خلاف کارروائی کی تحریری ہدایت بھی رکھی ہے جو تحقیقات میں مصروف ہے، چیف آف آرمی اسٹاف جنرل راحیل شریف یہ بیان بھی دے چکے ہیں کہ  پاک فوج ہر حال میں اپنے وقار کا دفاع کرے گی

پاک فوج کے ساتھ یکجہتی کیلیے بہت سے علاقوں میں مظاھرے بھی کئے گئے ہیں، بہت سے رہنماؤں نے مطالبہ کیا ہے کہ جیو کو بند کر دیا جائے. جو لوگ آئین اور قانون سے آشنا ہیں انکا کہنا  ہے کہ کسی کو بھی عدلیہ اور فوج کی تذلیل کا حق نہیں ہے. جیو نے نادانستہ طور پر نہیں دانستہ طور پر پاک فوج کے اہم ادارے آئ اس آئ اور اسکے سربراہ جنرل ظہیر الاسلام کے خلاف کئی روز تک جو مہم چلائ اسے بهول چوک نہیں قرار دیا جا سکتا

اب سوال یہ ہے کہ جیو ٹی وی کے خلاف کیا کارروائی کی جائے، اگر وزیراعلیٰ  بلوچستان  کی سوچی سمجھی رائے یہ ہے کہ جیو ٹی وی کو بند نہیں ہونا چاہئے تو وہ قوم کو باتیں کہ پاک فوج کو بدنام کرنے کی جو مہم چلائی گئی کیا اس شرانگیزی پر کوئی سزا نہیں دینی چاہئے، اگر کوئی نہ کوئی سزا دینی چاہئے تو کیا آئین اور قانون اس سلسلے میں خاموش ہے، اگر قانون کوئی سزا تجویز کرتا ہے تو وہ سزا کیا ہے اور جیو کو یہ سزا کیوں نہ دی جائے


 جرم ثابت ہونے پر کم سے کم سزا بھی دی جا سکتی ہے اور زیادہ سے زیادہ سزا بھی دی جا سکتی ہے. اگر کوئی ملزم اقبال جرم کر لے کیا کوئی قانون ہے جس کے تحت اسے معاف کر دیا جائے اور سزا نہ دی جائے. بعض ملکوں میں ایسے ملزموں کو جو عدالت میں فوری طور پر اقبال جرم کر لیتے ہیں اور معافی مانگتے ہیں انکو  سخت سزا نہیں دی جاتی اور نرمی سے کام لیا جاتا ہے لیکن ایسا نہیں ہوتا کہ انکو معاف کر دیا جائے . اگر کسی کے ساتھ کسی وجہ سے نرمی اختیار کرنی ہو تو اتنی نرمی بھی نہیں  کرنی چاہئے کہ لوگوں کی دل آزاری ہو


 پاک فوج کے معاملہ میں ہمارے  عوام بہت حساس ہیں، وہ یہ برداشت نہیں کر سکتے کہ پاک فوج کا وقار گرایا جائے اور جان بوجھ کر اسے بدنام کرنے کا محاذ کھولا جائے ، کسی بھی ملک کے  محب وطن عوام اپنی فوج کے خلاف کوئی بات سننے کو تیار نہیں ہو سکتے

 جیو کے  خلاف مرکزی ادارے پیمرا میں شکایت درج ہو چکی ہے جسکی تحقیقات بھی ہو رہی ہے، بہت سی عدالتوں میں لوگوں نے مقدمات بھی درج کرادیئے ہیں چنانچہ اب یہی بہتر ہے کہ پیمرا کو فیصلہ کرنے دیا جائے اور عدالتوں پر بھی اثرانداز ہونے کی کوشش نہ کی جائے، انکو بھی قانون کے مطابق  منصفانہ طور پر اپنا فیصلہ کرنے دیا جائے، خاص طور  سے حکومت کو مکمل طور سے غیر جانبدار رہنا چاہئے،  کسی کو ایسے بیانات سے عدلیہ پر اثرانداز نہیں ہونا چاہئے کہ میڈیا کے کسی ادارے کو بند نہیں ہونے دیں گے


 اگر کسی نے گڑ بڑ گھوٹالا کیا تو خدا سب کچھ دیکھ رہا ہے عوام بے چینی سے عدلیہ کے فیصلے کا انتظار کر رہے ہیں





پڑھنے کا شکریہ

کوئی تبصرے نہیں: