میں آدمی عام سا... ایک قصہ ناتمام سا
پاکستان کے عام آدمی ان دنوں ان جلسوں کی رونق بڑھا رہئے ہیں جہاں انکے لیڈر بڑے بڑے دعووں کے ساتھ انسے مخاطب ہوتے ہیں اور بڑی نیاز مندی کے ساتھ انکے حلقوم سے نکلنے والی غراہٹوں کو سنتے ہیں، نعرہ زن ہوتے ہیں اور دوسرے دن کسی اور جلسے کی جانب نکل جاتے ہیں... یہ عام آدمی مردوں، عورتوں اور نوجوانوں کی صورت جلسوں میں موجود ہوتے ہیں... کیا یہ دعویدار لیڈر خود کو عام آدمی کا نجات دہندہ سمجھتے ہیں .... عام آدمی بے گھر بے آس لاچار اور بے بس... کھلے آسماں تلے فٹ پاتھوں پر زندگی تلاش کرنے والا.... دفاتر میں کام کرنے والا .... دیہاڑی دار مزدور... ٹھیلا لگانے والا... بوجھ اٹھانے والا .... ہسپتالوں میں زندگی کی بھیک مانگتا ہوا.... کسی نامعلوم گولی اور دہشت کا شکار ہونے والا... محافظوں اور منصوبوں کی بھینٹ چڑھنے والا... اس عام آدمی کا مسئلہ کیا ہو سکتا ہے...
ایک محفوظ زندگی جو ایک سہانے خواب کی تعبیر جیسی ہے....
ڈی چوک سے دھوبی گھاٹ تک اور کراچی کی شاہراوں پر.......
فراواں مخلوق... زبانی جنگ میں برسرپیکار لیڈر انکے سامنے ہمہ تن گوش ہوتے ہیں...
انڈیا میں عام آدمی کا لیڈر تو شکست سے دوچار ہوا اب پاکستان کے عام آدمی کے لیڈر کا انجام کیا ہوگا....
عام آدمی یہی سوچ رہا ہے اور خود سے ہم کلام ہے...
میں آدمی عام سا... ایک قصہ ناتمام سا
نہ لہجہ بے مثال ہے.. نہ بات میں کمال ہے
ہوں دیکھنے میں عام سا.. اداسیوں کی شام سا
جیسے کہ راز ہوں... خود سے بے نیاز ہوں
رانجھا نہ قیس ہوں.. ....انشا نہ فیض ہوں
میں پیکر خاص ہوں... وفا دعا اور آس ہوں
میں آدمی ہوں عام سا؟ یا پھر بہت ہی خاص سا ؟
سو عام آدمی کی کتھا کچھ اتنی بھی انہونی نہیں ہے... عام آدمی کے لیڈر یہ اچھی طرح جانتے ہیں...
پڑھنے کا شکریہ
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں