الطاف حسین کی حقیقت پسندی، عملیت پسندی اور حق پرستی نے ایم کیو ایم کے کارکنوں کو کندن بنا دیا ہے، وہ اپنے قائد ، انکے نظریہ اور ایم کیو ایم سے بے وفائی کا تصور بھی نہیں کر سکتے، یہی الطاف حسین کی سب سے بڑی کامیابی ہے اور یہ انکی تربیت کا نتیجہ ہے کہ ایم کیو ایم کراچی سے نکلی، سندھ میں پھیلی، دوسرے صوبوں میں بھی اپنا مقام بنایا، پھر دوسرے ملکوں میں بھی اپنی جڑیں مظبوط کیں اور وہ ایک بین الاقوامی تحریک بن چکی ہے، جو سیاسی اجارے داریوں کے خلاف ہے، غریب اور متوسط طبقہ کو انکے حقوق دلانا چاہتی ہے اور اس نے سیاست کو عبادت سمجھ کر اختیار کیا ہے
متحدہ قومی موومنٹ کے قائد تحریک الطاف حسین کسی تعریف کے محتاج نہیں پوری دنیا میں یہ نام جانا پہنچنا ہے. 17 ستمبر 1953میں مولانا مفتی رمضان حسین کے برخودار نذیر حسین کے یہاں ایک بیٹا پیدا ہوا جسکا نام الطاف حسین رکھا گیا. انکے والد نذیر حسین کا 13 مارچ 1968میں انتقال ہوا اور انکی والدہ محترمہ خورشید بیگم 5 دسمبر 1985میں انتقال کر گئیں. اس جوان نے 1969میں جیل روڈ اسکول سے میٹرک کیا اور 1980میں سٹی کالج سے B S c میڈیکل کیا اور کراچی یونیورسٹی سے BPharmacy پھر Seven Day ہسپتال میں بطور Trainee رہئے. یونیورسٹی میں جہاں بہت سی طلباء تنظیمیں تھیں جو خاص طور پر مہاجریں طلباء کو نظر انداز کرتی تھیں اس وقت اس نوجوان کو احساس ہوا کیوں نہ اس مظلوم طبقہ کو یکجا کیا جائے اسکی خاطر اس جوان نے اپنے دوستوں کو مشوره دیا کہ 20 بیس روپے جمع کرکے ایک کتابچہ شائع کرتے ہیں اور تمام مہاجر طلباء کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کرکے ان کیلئے جدوجہد کرتے ہیں.
16 جون میں اس طلباء تنظیم کا نام APMSO رکھا گیا اور جدوجہد شروع کی اس جدوجہد کا نتیجہ میں 18 اگست میں گرفتار ہوئے اور نو ماہ تک قید کی صعوبتوں کو برداشت کیا لیکن اس جوان کے عزم میں کمی کے بجائے پختگی پیدا ہوئی اور اپنی جدوجہد کو اپنے چند اہم ساتھیوں کے ساتھ جاری رکھا جس میں خاص طور پر ڈاکٹر فاروق ستار جیسے ساتھی آج بھی اسی لگن اور محبت سے اس جوان کا ساتھ دے رہئے ہیں.
قائد تحریک الطاف حسین نے اپنی تنظیم کو ہمیشہ اصولوں کی بنیاد پر چلایا اور تمام کرکنان کو نظم و ضبط کی بہترین تعلیم دی. پاکستان کی تاریخ میں اتنی منظم کوئی سیاسی جماعت قائم نہ ہوئی. اس ایم کیو ایم کا مقصد یہ تھا کہ پاکستان میں جسطرح پنجابی. پٹھان، سندھی، اور بلوچی لوگوں کو حقوق حاصل ہیں ویسے ہی حقوق ان لوگوں کو بھی ملنے چاہئیں جنکے والدین نے پاکستان کی محبّت میں ہندوستان سے ہجرت کی جنکی تیسری نسل اسی پاک سر زمین پر پیدا ہوئی اور اسی زمین کو اپنا وطن قرار دیا، اپنا جینا مرنا اسی زمین سے وابستہ رکھا اور ایم کیو ایم کے اس مقصد میں بڑی رکاوٹیں آئیں پوری مہاجر قوم کو غدار بنانے کی کوشش کی مگر جدوجہد بڑھتی رہی یہاں تک کہ 16 جون 1992 میں اس ایم کیو ایم کے خلاف غیر ضروری فوجی آپریشن کیا گیا. یہ آپریشن دراصل کرپٹ لوگوں کے خلاف کرنے کا اعلان ہوا تو ایم کیو ایم کے قائد نے پورا تعاون کیا کیونکہ انکی جدوجہد میں کرپشن سے پاک معاشرہ شامل تھا. اسکی خاطر قائد تحریک الطاف حسین نے اپنی سیاسی جماعت میں لفظ مہاجر ختم کر دیا کیونکہ 1997تک پاکستان میں مہاجروں کو ایک مقام ایک باعزت شہری کے طور پر تمام دوسری قوموں نے تسلیم کرلیا تھا. یہ قائد تحریک الطاف حسین کی زبردست کامیابی تھی اور اس کامیابی نے مہاجر قومی موومنٹ کا پہلا ہدف مہاجروں کی پہچان انکو برابری کی بنیاد پر حقوق دینا جیسی حقیقت کو تسلیم کیا جا چکا تھا اسلئے 26 جولائی 1997میں اسکا نام مہاجر قومی موومنٹ سے بدل کر متحدہ قومی موومنٹ رکھ دیا گیا جسکا مقصد یہ تھا کہ اب یہ تحریک صرف مہاجروں کی جدوجہد نہیں بلکہ تمام مظلوم قوموں، غریبوں، مزدوروں، طلباء اور سفید پوش لوگوں کی تحریک ہو جائے گی.
اس وقت لندن میں ان پر منی لانڈرنگ کے نام پر جو ہراسمنٹ پیدا کیا گیا ہے وہ ناقابل فہم اسلئے ہے کہ منی لانڈرنگ کا براہ راست تعلق کسی صورت پارٹی کے سربراہ سے نہیں ہوتا اور نہ ہی لندن کی گزشتہ تاریخ میں کسی منی لانڈرنگ کے مجرم کے ساتھ اس انداز کا سلوک کیا گیا ہے بلکہ میں سمجھتا ہوں یہ ہمارے کچھ نادانوں کا کام ہے جو قائد تحریک الطاف حسین کی سندھ میں پھیلتی ہوئی مقبولیت کا سیاسی مقابلہ نہیں کر سکتے. اسلئے اس انداز کی سازش شروع کی جس انداز کی ذوالفقار علی بھٹو کو سیاسی راہ سے ہٹانے کی، کی تھی اور میں سمجھتا ہوں یہ معاملہ منی لانڈرنگ تک نہیں رہے گا اسکا رخ دہشت گردی کے الزامات اور عمران فاروق کے قتل سے جوڑا جائے گا جبکہ قائد تحریک کا ان معاملات سے دور دور تک واسطہ نہیں.
انہوں نے لندن میں رہ کر نہ وہاں کا کلچر اپنایا نہ وہاں کی سیاست کا حصہ بنے بلکہ مسلسل انہوں نے اپنی سیاسی، تاریخی و دینی معلومات میں اضافہ کیا اور اپنے عزم کو مظبوط بنایا. انکا مزاج یہ ہے کہ جو بھی انکا ہمدرد ہے انکا چاہنے والا ہے وہ کسی کو کسی مشکل میں نہیں دیکھ سکتے، وہ اپنی پارٹی کے لوگوں سے ایسی ہی محبت کرتے ہیں جیسے باپ اپنی اولاد سے، اسی وجہ سے دنیا نے دیکھا کہ جب چند دنوں پہلے انہیں گرفتار کیا گیا تو پورے پاکستان میں ہر طبقہ فکر کے لوگوں نے انکے ساتھ اظہار ہمدردی کیا اور کارکنوں نے جو جذبات، جوش میں تھے انہوں نے انتہائی پرامن رہ کر اپنے جذبات کا اظہار دھرنوں کی صورت میں کیا.
ہمیں اس بات کا پورا یقین ہے کہ اگر قائد تحریک الطاف حسین پر سازش کے بجائے اپنے مروجہ قوانین کے ذریعہ تحقیقات کی جائے تو ہر حال میں وہ تمام الزامات سے بری الذمہ قرار پائیں گے. حکومت برطانیہ کی یہ ذمہ داری ہے کہ اس سازش کو تلاش کیا جائے ان لوگوں کو بے نقاب کیا جائے جنہوں نے ایم کیو ایم کے اس قائد جس نے برطانیہ میں کبھی کوئی قانون شکنی نہیں کی، اس پر اس انداز سے تحقیقات کرنا خود حکومت برطانیہ کو داغدار کرنا ہے. برطانیہ وہ ملک ہے جہاں کی عدالتوں میں واقعی انصاف ملتا ہے. اگر ہماری حکومت نے اخلاقی اور قانونی معاونت کی تو یقینان بہت جلد قائد تحریک الطاف حسین تمام الزامات سے بری الذمہ قرار +پائیں گے.
_________________________________________________________________
علامہ سید محسن کاظمی
پڑھنے کا شکریہ
اپنی قیمتی آراہ سے ضرور نوازیں
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں