فرزانہ کتنی بیوقوف تھی جو یہ سمجھ بیٹھی کہ لوگ اسکی مدد کو آئیں گے. آخری سانس تک وہ اتنی سی بات نہ سمجھ سکی کہ جن لوگوں سے وہ مدد کی بھیک مانگ رہی ہے وہ بھی اسی سماج کا حصّہ ہیں جہاں کسی کی لاچاری کا تماشا تو دیکھا جا سکتا ہے لیکن بے بس کی مدد کیلئے کوئی ہاتھ نہیں بڑھاتا
فرزانہ بھری سڑک پر دن دیہاڑے انصاف کی چوکھٹ کے عین سامنے سنگسار کر دی گئی لیکن کوئی ہاتھ ان ظالموں کو روکنے کو آگے نہ بڑھا. موت کا یہ شرمناک کھیل دیکھ کر سماج کے کسی ٹھیکیدار کی غیرت نہ جاگی. حتی کہ جنکا کام ہی لوگوں کی حفاظت کرنا ہے وہ بھی پتھرکے بت بنے سب دیکھتے رہے. عورت ذات تھی نا اسلئے کم عقل تھی. وہ کیا جانتی کہ جن کے آگے اپنی جان بچانے کیلئے گڑ گڑا رہی ہے یہ وہ ہی سماج کے ٹھیکیدار ہیں جنھوں نے کاری جیسی مکروہ رسم بنائی ہے. وہ کیوں آتے اسکی مدد کو یہ انہی کا تو طفیل ہے کا فرزانہ اور اسکے ہونے والے بچے کو قتل کر دیا گیا
فرزانہ کیا تو نہیں جانتی تھی کہ یہاں ایک چھوٹی بچی کو "ونی " کے نام پر اپنے سے کئی گنا بڑی عمر کے مرد سے تو بیاہا جا سکتا ہے لیکن ایک جوان بالغ لڑکی کو اپنی پسند کا جیون ساتھی چننے کا اختیار نہیں ہے. اسے یہ حق نہیں ہے کہ اپنے لئے خوشیوں کے خواب بنے فرزانہ نے یہ کیسے سوچ لیا کہ وہ اس تنگ نظر سماج کے عتاب سے بچ جائے گی؟ فرزانہ کا مقدر ان ہزاروں لڑکیوں سے مختلف کیونکر ہو سکتا تھا جو ہر سال " غیرت " کے نام پر موت کے گھاٹ اتار دی جاتی ہیں ؟
فرزانہ اس ملک پاکستان کی باسی تھی جہاں ایک مرد اپنے گھر کی عورت کو بیچ چوراہے پر مار مار کر لہو لہان بھی کر دے تو کوئی مائی کا لال اسے نہیں روکے گا. ہاں ایک شادی شدہ جوڑا کسی پارک میں بیٹھا نظر آجائے تو غیرت بریگیڈ ہاتھوں میں کیمرے سنبھالے بغل میں مائیک دبائے سوال جواب کرنے انکے سر پر ضرور پہنچ جائے گی. آخر کو " غیرت ' کا معاملہ ہے، کتنی بھولی تھی فرزانہ یہ نہ سمجھ پائی کہ وہ ایک انسان نہیں بلکہ اپنے باپ بھائی چاچو اور ماموں کی ملکیت ہے اسے کوئی حق نہ تھا جینے کا نا ہی آزادی کا. وہ بدنصیب تو دنیا میں آئ بھی انہی کی مرضی سے تھی اور گئی بھی انہیں کی مرضی سے. بدنصیب خود تو مر گئی. قاتل زندہ ہیں. جو بھاگ سکتے تھے وہ بھاگ گئے جو پکڑے گئے وہ معمولی سزا کے بعد چھوٹ جائیں گے. فرزانہ کو اس دنیا میں انصاف نہیں ملا اب موت کے بعد اسکی روح بھی انصاف کیلئے بھٹکتی رہئے گی.
جب تک اس ملک پاکستان کے بے حس لوگ خاموش تماشائی بنے رہیں گے اسطرح بہو بیٹیاں غیرت کی صلیب پر چڑھائی جائیں گی اور مکروہ قاتل اسطرح سینہ چوڑا کیے دندناتے پھریں گے. جب تک اس غیرت کے خناس اور عورت کی ملکیت کے تصور کو ان مریض ذہنوں سے نکالا نہیں جائے گا، یہ سلسلہ یوں ہی چلتا رہے گا. پاک لوگوں کی اس سرزمین پر جبتک انصاف آنکھوں پر پٹی باندھے، کانوں میں انگلیاں ٹھونسے، لبوں پر تالے لگائے ایک بت کی مانند تماشا دیکھتا رہے گا، اسکی چوکھٹ پر بیٹیاں یوں ہی سنگسار ہوتی رہیں گی
پڑھنے کا شکریہ
اپنی قیمتی آراہ سے ضرور نوازیں
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں